بلال اور علی کی کہانی

June 05, 2017

بلال اور علی کی کہانی سن کر آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ ان دو معصوم یتیم بچوں کی چھوٹی سی کہانی میں کئی بڑی کہانیاں چھپی ہوئی تھیں۔ اپنے گھر کے سامنے کھیلنے والے یہ دونوں بچے فضا سے ہونے والی بمباری کا نشانہ بنے۔ سات سالہ بلال کا چہرہ اتنا جھلسا کہ اُس کی دونوں آنکھیں ضائع ہو گئیں اور اُس کے چھوٹے بھائی پانچ سالہ علی کا بایاں بازو تن سے جدا ہو گیا۔ ان دونوں بچوں کی جانیں تو بچ گئیں لیکن جب یہ ہوش میں آئے تو پتا چلا کہ دونوں بھائی یتیم ہو چکے ہیں۔ بمباری میں ان کا باپ شہید ہو گیا تھا۔ بلال اور علی جیسے معصوم یتیموں کی کہانیاں کشمیر، افغانستان، فلسطین، عراق اور لبنان سے لے کر یمن تک پھیلی ہوئی ہیں۔ میں نے جب سے میدان صحافت میں قدم رکھا ہے یہ کہانیاں سن رہا ہوں۔ کبھی بوسنیا، کبھی چیچنیا، کبھی سوات کبھی شمالی وزیرستان، کبھی غزہ کبھی بیروت، کبھی بغداد کبھی کابل، کبھی پشاور کبھی کوئٹہ، کبھی آزاد کشمیر میں بھارتی گولہ باری کا نشانہ بننے والے کئی شہر تو کبھی کراچی میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ہر یتیم کی کہانی ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ہر کہانی میں مسلمان کا خون بہایا گیا اور مسلمان ہی دہشت گرد کہلایا۔ ان کہانیوں میں کہیں ہندوستان نے ظلم کیا تھا، کہیں امریکہ یا اسرائیل نے بمباری کی تھی، کہیں اسلام کے نام پر جہاد کرنے والوں نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہایا تھا لیکن یہ احساس نہ ہوا تھا کہ یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ بلال اور علی کی کہانی سُن کر پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ میرا تعلق ایک ایسی بے خبر قوم سے ہے جسے ایک بہت بڑی جنگ کے دہانے تک دھکیلا جا چکا تھا لیکن اس قوم کو حالات کی نزاکت کا احساس ہی نہیں۔ بلال اور علی کی کہانی ایک بہت بڑی جنگ کی خبر دے رہی تھی۔ جب بلال نے اپنے بوڑھے دادا کی گود میں بیٹھ کر بڑی معصومیت سے یہ کہا کہ ’’میں اپنی آنکھوں سے اس دنیا کو دیکھنا چاہتا ہوں اور میں پڑھنا چاہتا ہوں‘‘تو مجھے ایسا لگا کہ ہم سب نابینا ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس آنکھیں موجود ہیں۔ بلال اور علی جیسے لاکھوں یتیم بچے نوشتہ دیوار بن چکے ہیں لیکن ہماری آنکھیں اس نوشتہ دیوار کو پڑھنے سے قاصر ہیں۔ بلال اور علی کی کہانی میں نے شام کی سرحد سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ترکی کے شہر ریحان لی میں سنی۔ یہ دونوں بچے اُن دس لاکھ یتیموں میں شامل ہیں جنہیں پچھلے سات سال سے شام میں جاری جنگ نے اپنے والد سے محروم کر دیا۔ پچھلے دو دن میں نے ترکی اور شام کی سرحد پر واقع شہروں عرفا، کلس اور ریحان لی میں گزارے۔
میں بلال اور علی جیسے بہت سے یتیموں کو ملا اور اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کو ڈھونڈتا رہا۔ حیرت ہوئی کہ ترکی میں 35لاکھ سے زائد شامی مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے لیکن ترکی اور شام کے سرحدی علاقوں میں اقوام متحدہ سمیت کسی بڑی مغربی این جی او کی سرگرمی نظر نہیں آتی۔ یہاں ترکی کی ایک این جی او انسانی حق و حریت (آئی ایچ ایچ) اور اس کی پاکستانی شاخ خبیب فائونڈیشن کے قائم کردہ یتیم خانوں، اسکولوں اور دیگر امدادی مراکز میں بلال اور علی جیسے بچوں کی کہانیاں سنتے ہوئے بار بار یہ سوال میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا کہ جس بڑی جنگ کے آثار مجھے شام کی سرحد پر کھڑے ہو کر نظر آنے لگے ہیں کیا اس بڑی جنگ کی خبر ہمارے حکمرانوں کو ہے یا نہیں؟ ہم آپس میں ایک دوسرے کے خلاف چھوٹی چھوٹی سیاسی جنگوں میں الجھے ہوئے ہیں لیکن ہمیں یہ خبر کیوں نہیں کہ انہیں چھوٹی سیاسی جنگوں کے بطن سے ایک بہت بڑی جنگ جنم لینے والی ہے اور یہ جنگ بہت لمبی ہو گی؟ شاید یہ تیسری عالمی جنگ بن جائے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں پاکستانی سیاست کے مصالحے دار موضوعات سے ہٹ کر شام کے دس لاکھ یتیموں کی کہانی لے کر کیوں بیٹھ گیا؟ دراصل پچھلے دنوں مانچسٹر میں خودکش حملہ کرنے والے سلمان عابدی کے متعلق جب یہ پتا چلا کہ اُس کا تعلق لیبیا سے تھا اور اُس نے شام میں داعش کے ساتھ وقت گزارا تھا تو میں نے فیصلہ کیا کہ شام کے حالات کو مزید سمجھنا ضروری ہے کیونکہ داعش کی ہر کارروائی سے مسلمانوں کو فائدہ نہیں بلکہ صرف نقصان ہوتا ہے۔ انبیاءؑ کے شہر عُرفا میں مجھے ایسی بہت سی شامی بیوائوں کی کہانیاں سننے کا موقع ملا جن کے خاوندوں کو داعش نے گولی مار کر قتل نہیں کیا بلکہ ایذا رسانی سے قتل کیا۔ داعش اسلام کے نام پر صرف مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ برطانیہ یا فرانس میں بم حملوں کی ذمہ داری قبول کر کے بھی مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔ مغربی میڈیا میں یہ دعوے عام ہیں کہ داعش کو امریکہ اور اسرائیل نے بنایا، پھر داعش سے لڑنے کے لئے بہت سے گروپ بنوا دیئے گئے اور اب ایک عالمی اتحاد بھی بنایا جا رہا ہے۔ ہم نے پاکستان میں ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈال رکھا ہے اور رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنوں والا سلوک کر رہے ہیں لیکن ہمیں یہ پتا نہیں کہ شام کی جنگ میں ہم بُری طرح اُلجھ چکے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی نوجوان شام کی جنگ میں مختلف اطراف کے لشکروں میں شامل ہو کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ یہ پاکستانی نوجوان داعش میں بھی شامل ہیں اور بشار الاسد کی فوج کے اتحادی لشکروں کا حصہ بھی ہیں۔ کیا یہ نوجوان پاکستان واپس آ کر وہی کچھ نہیں کریں گے جو یہ شام میں کر رہے ہیں؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ شام، ترکی اور ایران یہ تینوں ممالک اسرائیلی پالیسیوں کے مخالف ہیں لیکن شام کی جنگ نے ان تینوں کو مخالف کیمپوں میں دھکیل دیا ہے اور پاکستان بھی ثالثی کے دعوے کرتا کرتا اس جنگ کا ایک فریق بننے جا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ دورئہ مشرق وسطیٰ کے بعد خدشہ ہے کہ شام یا یمن میں ایک بڑی جنگ کے شعلے بھڑکنے والے ہیں اور یہ جنگ ایک ملک اور ایک خطے تک محدود نہ رہے گی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ مجھے اس جنگ میں پاکستان صاف الجھتا نظر آ رہا ہے لیکن پاکستان کے سیاستدانوں کی اس طرف کوئی توجہ نہیں، وہ ایک دوسرے کو گرانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان سے ہزاروں میل دور عُرفا اور ریحان لی جیسے سرحدی شہروں میں خبیب فائونڈیشن کے قائم کردہ یتیم خانوں اور امدادی مراکز پر پاکستان کا پرچم دیکھ کر ندیم خان اور مفتی ابولبابہ کے لئے بہت سی دعائیں نکلیں اور جب واپسی کے سفر میں حضرت بایزید بسطامیؒ کے مزار پر حاضری ہوئی تو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے پاک پروردگار دنیا بھر کے مسلمانوں کو بلال اور علی جیسے لاکھوں یتیموں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرما اور یتیموں کی ایک پوری نسل کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی بجائے امت مسلمہ کے اتحاد کا ذریعہ بنا تاکہ ہم اس بڑی جنگ میں اپنا دفاع کر سکیں جو شام میں شروع ہونے والی ہے۔ (آمین)



.