مصور صادقین کے ساتھ کیا ہورہا ہے

June 09, 2017

گزشتہ دنوں صادقین کی ایک پینٹنگ ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں فروخت ہوئی ۔ صادقین دل کے فقیر اور بادشاہ تھے ۔ جس نے بھی کبھی اپنی تصویر ، کبھی غالب کا کوئی شعر یا کچھ اوربنوانا چاہا۔ اس درویش نےنانہ کہا۔ بخوشی آدھے گھنٹے میں بناکر دیدیا۔ میرے جیسے لوگوں سے جب وہ اور شاکر علی کہتے کہ تمہیں کونسی پینٹنگ لینی ہے۔ تو میں ہنس کر کہتی ’’ آپ کے گرد مانگنے والے بہت ہیں، پہلے انکی غرض پوری کریں ۔ میں جب اقبال ٹائون میں گھر بنارہی تھی تو صادقین نے کہا ’’ تم مجھے ڈرائنگ روم کی ایک دیوار دیدو ، میں اسے پینٹ کرونگا ، میں نے اسکی بات اسلئے نہیں مانی کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں بھی ساری دنیا کی طرح ہوجائوں میرا غرور غلط تھا اسلئے کہ ہر اردگرد بیٹھے شخص کی طرح نہیں ہوناچاہتی تھی ۔ صادقین لاہور کوئی چھ برس تک رہے ۔ اور ہر خاتون ومرد کو جس نے جوچاہا ، سرابرت لگاتے رہے ۔ پھر وہ سال بھر کے لئے انڈیا چلے گئے۔ حیدرآباد دکن سے لیکر دلی کی جتنی مذہبی اور علمی درسگاہ ہیں، انہیں ملیں، انکو اپنے فن مصوری سے بشاشت کے ساتھ آراستہ کرتے رہے۔ اب پھر کراچی آگئے ، کراچی میں فرئیر ہال سے لیکر مختلف عمارتوں کو اپنے فن سے نوازا۔ لاہور کا تو آپ کو علم ہی ہوگا کہ میوزیم کی چھت سے لیکر ، میوزیم کے اندر،اندر کے حاشیوں میں سورۃ رحمن اس سلیقے سے لکھی کہ کافر بھی ایمان لے آئے ۔
اب آگے کا فسانہ سنئے۔ صادقین کی وفات کے بعد، جن لوگوں نے ، ان سے تصویریں بنوائی تھیں۔ انکو اعلیٰ قیمت پر فروخت کرنے کے لئے، اپنے بلوں سے نکل کر آرٹ گیلریوں کا رخ کیا اسمیں ضرورت مندیا امیر کبیروں کی کوئی تخصیص نہیں تھی ۔ البتہ یہ چیک کرا لیتے تھے کہ یہ اصل ہے کہ کاپی ، کہ انکا شاگرد ، ایک مدت تک ، انکی نقل ، اصل کے برابر بناکر بیچتا رہا ۔ جب یہ منظر دیکھاتو صادقین کے رشتہ دار پیسہ کمانے کے لئے سامنے آگئے ، ویسے وہ پہلے بھی صادقین کے لئے آرٹ گیلری بنانے کو جوزمین ملی تھی ۔ اسپر ایک مدت تک شادی ہال بناکر ، زرکثیر جمع کرتے رہے ۔ جب سرکار کو ذرا ہوش آیا تواب خطاطی سینٹر اور کوئی اسکول بنادیا گیا ہے ۔ اب انہوں نے صادقین کی مصوری کی کافی بک لاکھوں روپے میں بنائی اور فروخت کی اب جو کچھ میں لکھ رہی ہوں، وہ آنکھوں دیکھا ہے ، سناسنایا نہیں ہے ۔ ہر گھر سے صادقین کی دوتین پینٹنگز نکلنے لگیں اور فروخت ہونے لگیں۔ یہی حال احمد پرویز کی پینٹنگز کا اسکے انتقال کے بعد ہوا ۔ گل جی بھی چغتائی صاحب کی طرح اپنی پینٹنگز کی نقل بالکل اسطرح بناتے تھے جیسا کہ پکا سونے کہا تھا کہ اپنی پینٹنگ کی نقل بھی میں خود ہی بناتا ہوں۔ صادقین کو یہ کہنے کی ضرورت اسلئے نہیں تھی کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں سے تیئس گھنٹےکام کرتا ، کھانے میں دولقمے زبردستی کھا لیتا تھا ۔ ہرچند اپنا پورٹریٹ بنوانے والی خواتین طرح طرح کے پراٹھے بناکر لاتیں۔ صادقین ہم سب کو فون کردیتا آئو غریب خانے پہ پلائو کھائو ۔ وہ سب نازنین، کبھی خودتو نہیں ، انکی اولادوں نے بھی وہ پورٹریٹ بیچ کر مال کھرا کیا ۔ بہت سے لوگوں کو بکرے کی کھال پر کبھی شو اور کبھی خطاطی کرکے دی تھی ۔ انہوں نے بھی ریٹائرمنٹ اور صادقین کے مرنے کے بعد ، سکون عاقبت کا اہتمام کیا ۔ ا ب بتائوں سرکاری ادارے PNCAکا احوال ، وہاں کوئی سو کے قریب صادقین کی پینٹنگرز تھیں کہ اسلام آباد جب وہ رہے توایک گھر انہیں کرائے پر لیکر دیاگیا تھا ۔ وہ جب یہاں سے گئے تو ساری پینٹنگز ادارے ہی کو دے گئے تھے ۔ جو لوگ گیلری کے مہتمم مقرر ہوتے گئے ۔ صادقین کے علاوہ امرتہ شیر گل کی نابغہ روزگار پینٹنگز، کئی توسرحد پار اور کئی سمندر پار ، فروخت کرکے ، اپنی انتظامی سہولت سے کام لیتے رہے ۔ وہاں یعنی گیلری میں صادقین کی اب کتنی پینٹنگز باقی ہیں۔شاید جمال شاہ گنتی کریں تو خبر ہوجائے خبر ہوکے بھی کیا ہوگا ، کف افسوس ملنے کے سوا ۔
لاہور میں شاکر علی کی چند پینٹنگز ، انکی گیلری ہی میں ہیں۔چونکہ اس زمانے میں، پینٹنگ بنانے سے پہلے base نہیں بنائی جاتی تھی ۔ اس لئے وہ پینٹنگز جگہ جگہ سے اکھڑ رہی ہیں۔ اب جب ان مقامات پر افسر بیٹھ جائینگے توانہیں کیا خبر ، پینٹنگز کو ایک ماحول، کیسا ٹمپریچر اور کیسا رکھ رکھائو چاہئے۔ یہی حال ہر طرف ہے کہ اسلام آباد میں تودکان کی جگہ، لوگوں نے گیلریاں کھول لی ہیں۔ نمائش کرتے ہیں۔غیر ملکی مندوبین کوبلاکر اور فروخت کرکے، اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرلیتے ہیں۔ یہ کام کراچی اور اسلام آباد میں بہت زوروں پر ہے۔ میرا ان سے اختلاف نہیں، مگر نورجہاں کے بقول، کم بخت میری نقل میں گائیں ، مگر سر تو ٹھیک لگائیں۔