کارواں والو ! دن ہو یا رات۔ جاگتے رہنا جاگتے رہنا!

June 12, 2017

پاناما کیس کی مزید تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) اپنی حتمی رپورٹ کی تیاری کیلئے اپنا کام تیزی سے نمٹا رہی ہے اور یہ معاملہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جے آئی ٹی نے اپنی دوسری 15 روزہ رپورٹ سپریم کورٹ کے نگرانی کرنے والے بنچ کو جمع کرادی ہے ۔ حتمی رپورٹ کی تاریخ 7 جولائی جیسے جیسے قریب آرہی ہے ، ویسے ویسے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ردعمل بھی تیز ہو رہا ہے ۔ حکمرانوں کے روئیے سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ مایوس ہیں ۔ ان کے پاس جے آئی ٹی کے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں ۔ قطری شہزادہ بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہو رہا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے وزرا اور رہنماؤں کے بیانات سے 7 جولائی سے پہلے یا فوراً بعد کے ابھرتے ہوئے سیاسی منظر نامے کی نشاندہی ہو رہی ہے ۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت مسلسل یہ باور کرارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) ہر حال میں جے آئی ٹی کو متنازع بنانا چاہتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن)اس سلسلے میں کسی حد تک بھی جا سکتی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) عدالتوں پر حملہ بھی کر سکتی ہے ۔ ماضی میں بھی وہ ایسا کر چکی ہے ۔ اس کا یہ ٹریک ریکارڈ ہے ۔ وہ اب بھی جارحانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کا موقف یہ ہے کہ شریف خاندان سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے نتیجے میں سیاسی نقصان اٹھانے کی بجائے سیاسی طور پر شہید بننا چاہتا ہے تاکہ وہ پاکستان کی سیاست میں رہے اور ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ اقتدار کسی اور کے پاس چلا جائے ۔
کیا مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور اداروں کے مابین کوئی تصادم والی صورت حال پیدا ہو رہی ہے یا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایسا تاثر پیدا کرکے کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے جارحانہ روئیے سے اس سوال کے پہلے حصے کا جواب مثبت میں ملتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) تصادم سے گریز نہیں کرے گی ۔ گزشتہ جمعہ کو جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں جو واقعہ رونما ہوا ، وہ اس خدشے کی تصدیق کرتا ہے ۔ جوڈیشل اکیڈمی وہ جگہ ہے ، جہاں جے آئی ٹی کے ارکان بیٹھتے ہیں ۔ وہاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری عبدالغفور نے گھسنے کی کوشش کی اور ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر کو گالیاں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں ۔ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو گیا ہے ۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے سینیٹ کی رکنیت سے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا ہے ۔ نہال ہاشمی نے عدلیہ کے بارے میں جو زبان استعمال کی ، اس کے بعد ان کے استعفیٰ واپس لینے سے مسلم لیگ (ن) کی پالیسی واضح ہو گئی ہے ۔ دانیال عزیز اور رانا ثنا اللہ کے بعد آصف کرمانی اور دیگر مسلم لیگی رہنما بھی عدلیہ اور جے آئی ٹی پر جارحانہ تنقید کرنے کیلئے میدان میں آ گئے ہیں ۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جے آئی ٹی کو خود پر حملے کرانے کا شوق ہے ۔ حسین نواز کی پیشی کے دوران تصویر کا اجرا بھی جے آئی ٹی کے خلاف جاری مہم کا حصہ ہے ۔ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد بھی اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ جے آئی ٹی نے انہیں پانچ گھنٹے تک کیوں بٹھایا ۔ اس سے ان کی توہین ہوئی ہے ۔ یہ باتیں بھی اس مہم کو آگے بڑھانے کیلئے کی جا رہی ہیں ۔ عدالتوں میں پیشی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ، جس پر اس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا جائے ، جس طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت کر رہی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے جس طرح عدالتوں کا سامنا کیا اور اس پر صبر کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت نے نہ صرف عدالتوں کے ٹرائل کو بھگتا بلکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے رویئے سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ عدالتوں کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کیلئے کوئی بڑا اور غیر معمولی اقدام کر سکتی ہے اور یہ صورت حال ملک میں نئے سیاسی بحران کا آغاز ہو سکتی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی جماعت کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس نئی صورت حال کیلئے تیار رہیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تو تحریک انصاف سڑکوں پرآئے گی ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جے آئی ٹی پر روز حملے کئے جا رہے ہیں اور ان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے پاس اپنے دفاع کیلئے کوئی مواد نہیں ہے اور وہ عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کی طرف جا سکتے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تصادم کی صورت میں حکومت کی بجائے آئینی اداروں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے عدالتی قتل ہوئے ، لاشیں اٹھائیں ، وزارت عظمیٰ اور حکومتیں قربان کیں ، عدالتی فیصلوں کے آگے پارٹی عہدے تک قربان کئے لیکن اداروں کے ساتھ تصادم کی بجائے ان کے فیصلوں کو مانا ۔ ہم نواز شریف کو ماضی نہیں دہرانے دیں گے ۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ پر جانبداری اور امتیازی سلوک کا الزام لگانے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ الزام غیر ذمہ دارانہ ، توہین آمیز اور ناقابل قبول ہے ۔ میاں شہباز شریف اس پر معافی مانگیں اور اپنے اس اشتعال انگیز بیان کو واپس لیں ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کے مختلف حلقے بھی تصادم کی صورت میں اداروں کا ساتھ دینے کی بات کر رہے ہیں ۔ اس وقت ملک میں جو منظر نامہ بن رہا ہے ، اس میں دو قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراہوتی نظر آرہی ہیں ۔ ایک وہ قوت ہے ، جو ملک میں جمہوریت اور عوام کی بالادستی کیلئے کوشاں ہے اور دوسری قوت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ان کے حامی حلقوں کی ہے ، جو ہر حال میں اپنی سیاسی بالادستی کیلئے کوشاں ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے خلاف دوسری قوتوں کے صف آرا ہونے کا ایک سبب آئندہ عام انتخابات بھی ہیں ۔ پیپلز پارٹی اب ایک جمہوری حکومت کو بچانے کی بجائے اداروں کو بچانے کی بات کر رہی ہے ۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے علاوہ اس سیاسی صف بندی کی وجہ سے بھی مسلم لیگ (ن) بند گلی کی طرف جا رہی ہے اور وہ کوئی بھی غیر معمولی اقدام کر سکتی ہے ۔ اس صورت حال سے بعض دیگر قوتیں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی وجہ سے عالمی طاقتیں بھی پاکستان میں مداخلت کے راستے تلاش کر رہی ہیں ۔ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اسلامی ممالک کے اتحاد نے بھی اس خطے کی سیاسی حرکیات تبدیل کر دی ۔ قطر کو اس اتحاد سے نکالے جانے کے بعد پاکستان آزمائش سے دوچار ہو گیا ہے ۔ بعض علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں اس حوالے سے پاکستان کے نئے کردار کیلئے یہاں بحران کے ذریعہ دباؤ ڈال سکتی ہیں تاکہ پاکستان اپنی غیر جانبداری پر قائم نہ رہ سکے ۔ پاکستان ایسا ملک ہے ، جہاں استحکام نہیں ہے اور یہاں کئی قوتیں بیک وقت سرگرم ہیں ۔ جب تک یہ ملک سیاسی استحکام کی منزل حاصل کرتا ، تب تک سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی ، دانشوروں اور اہل رائے حلقوں کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ اداروں سے تصادم کی صورت میں پیدا ہونے والا بحران بہت سی قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کے مواقع مہیا کر سکتا ہے ۔
قذاقوں کے دیس میں جب تک کارواں ٹھہرے
کارواں والو ! رات ہو یا دن جاگتے رہنا
نواز شریف کے تذکرے پر ایک دوست سے معذرت!
ایک عزیز دوست نے جو ایک اخبار سے دوسرے اخبار میں’’نقل مکانی‘‘ کرگئے ہیں، میرے ایک کالم پر اظہار خیال کیا ہے جس میں، میں نے کہا تھا کہ نواز شریف کو دیوار کے ساتھ نہ لگائیں، اس پر دوست نے لکھا کہ کالم نگار کو شاید وہ نواز شریف یاد آرہے ہیں جو ہر لرزش صبا کے پیچھے چل کر کبھی ایک آرمی چیف اور کبھی دوسرے آرمی چیف کو بیک جنبش قلم فارغ کردیا کرتے تھے۔ میرے کالم نگار دوست نے ایک طویل کشمکش کو ایک جملے میں بیان کرکے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ میرے یہ دوست جماعت اسلامی سے ذہنی روابط رکھتے ہیں، ان کے والد گرامی مرحوم اور برادرم محترم جماعت کے رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ نواز شریف کی ایک ادا کو جمہوری حلقے ان کی شخصیت کا ایک بہت مثبت رخ سمجھتے ہیں یعنی یہ کہ وہ تمام ریاستی اداروں کو ان کے حدود و قیود میں کام کرتے دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر کبھی ایسا نہ ہو تو وہ بڑے سے بڑا خطرہ مول لے کر بطور وزیر اعظم پاکستان اپنا یہ فرض انجام دیتے رہے ہیں، مگر میرے بھائی کے گروہ کو یہ ادا جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ہی ناپسند ہے ،چنانچہ وہ گیارہ سال ان کے ہم نوا رہے۔ میں نے جو اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں ، آج کا نواز شریف وہ نہیں ہے تو اس پس منظر میں کہ وہ جمہوریت کی بقا اور استحکام کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے کئی ایک مواقع پر دل پر جبر کرکے کمپرو مائز کرتا نظر آتا ہے۔ پرویز رشید جیسے صاحب کردار انسان کا کیا قصور ہے، اس پر کون سا جرم ثابت ہوا ہے، مشاہد اللہ خان کو سزا کس بات پر دی گئی تھی، طارق فاطمی کی خدمات سے وزیر اعظم نے ملک و قوم کو کس کے لئے محروم کیا، اب وزیر اعظم کے بیٹوں کو کئی کئی گھنٹے کٹہرے میں کھڑا کرکے اور ایک مجرم کی طرح ان کی تصویر لیک کرکے انہیں کیامیسجدیا جارہا ہے؟ یہ سب تکلیف دہ امور کو قبول کرنا جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے ہی کے لئے تو ہے ، مگر میرے دوست کے ذہنی فریم ورک میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں، انہوں نے ایک بات یہ بھی فرمائی کہ نواز شریف عدلیہ پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، جی ہاں ، افتخار چودھری اور دوسرے کئی ججوں کو ان کے خاندانوں سمیت میاں نواز شریف ہی نے ان کے گھروں میں قید کیا تھا۔ میرے فاضل دوست بھول گئے کہ سپریم کورٹ کے ان ججوں کی آزادی کے لئے تحریک نواز شریف ہی نے چلائی تھی اور عدلیہ کی آزادی کا سہرا انہی کے سر بندھا تھا۔ شریف فیملی کے ساتھ اس وقت جو ہورہا ہے ، میرے فاضل دوست کی نظر ادھر نہیں جاسکی اور انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ پرویز مشرف پر آئین شکنی یعنی ملک سے غداری کا مقدمہ تھا مگر ان کی ایک تصویر بھی لیک نہیں ہوئی تھی ۔ وہ اس دوران جب چاہتےتھے، کمر کی درد کے بہانے اسپتال میں داخل ہوجاتے تھے اور پھر ضمانت پر رہا ہو کر ایک دن ملک سے فرار ہوگئے۔ اب درد کمر کے اس مریض کی تصویریں اخبارات میں شا ئع ہوتی ہیں جس میں وہ کسی پارٹی میں اپنی کمر لچکاتے نظر آتے ہیں۔
ایک بہت تکلیف دہ بات یہ ہے کہ میرے دوست کو جے آئی ٹی کے حوالے سے سامنے آنے والے سوالات سے کوئی غرض نہیں۔ عمر چیمہ جو پاناما کاغذات لیک کرنے والی صحافیوں کی جماعت کا ایک رکن تھا اور جو بلا مبالغہ ایک باضمیر اور بہادر صحافی ہے اور اپنی ان’’صفات‘‘ کے طفیل بہت تکلیف دہ مراحل سے گزر چکا ہے، میرے دوست اس کی بات سن لیں جس کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کا سارا انتظام و انصرام محکمہ دفاع کے ایک ذیلی ادارے کے پاس ہے۔ طارق شفیع کی بات سن لیں جن سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک کاغذ پر دستخط کرکے وعدہ معاف گواہ بن جائیں، نیشنل بینک کے صدر کو بارہ گھنٹے جرح کے دوران اور پانچ گھنٹے انتظار کی سولی پر چڑھانے کے بعد بقول ان کے یہی بات ان سے کی گئی جو طارق شفیع سے کی گئی تھی۔
پاکستان میں ایک صحافی ہے جس کا نام انصار عباسی ہے، انتہائی نیک ، پارسا اور اپنے قلم کو اپنے خدا کی امانت سمجھنے والا، اس کی رپورٹ پڑھ لیں جو اس نے جے آئی ٹی کے حوالے سے’’دی نیوز‘‘ میں شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کو تمام تر مبینہ دبائو اور دھمکیوں کے باوجود کرپشن یا منی لانڈرنگ کا کوئی سراغ نہیں ملا، چنانچہ اب اس کی ساری کوشش کوئی وعدہ معاف گواہ تلاش کرنے پر مرکوز ہے۔ میرے دوست کی ’’نگاہ تیز‘‘ اس’’دل وجود‘‘ کو چیرنے پر کیوں آمادہ نہیں، انہیں اگر صدمہ ہے تو صرف یہ کہ چاروں طرف سے وزیر اعظم نواز شریف پر الزامات کی بارش ہورہی ہے اور ان کی کردار کشی کرنے والے سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اس طوفان بدتمیزی میں دو ایک آوازیں ان سب کی ہم نوا کیوں نہیں بن رہیں؟ میرے دوست آپ بن گئے، میں نہ بن سکا، آپ سے جو دیرینہ محبت کا رشتہ ہے امید ہے اس کے طفیل آپ میری یہ خطا معاف فرما دیں گے۔