ہر خطرے میں متحد

June 20, 2017

فوج اور کرکٹ میں دو تین چیزیں مشترک ہیں، دونوں میں کوئی فرقہ یا صوبہ نہیں صرف پاکستان نظر آتا ہے، دونوں سے جذبے جوان ہو جاتے ہیں، دونوں کے لئے ملک کے ہر کونے میں ہر وقت محبت جاگتی رہتی ہے۔ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی، دونوں سے بے حد محبت کرتے ہیں۔
قوم کو مبارک ہو کہ اس کی کرکٹ ٹیم نے قوم کو جیت سے سرفراز کیا، اس پر قوم کو فخر ہے۔ پوری پاکستانی قوم میچ کی محبت میں گرفتار تھی، میں نے خود اپنے اعزاز میں ہونے والی افطاریوں سے معذرت کی اور میچ دیکھنے کا فیصلہ کیا، میچ کے آغاز سے پہلے بھارتیوں کے تبصرے تکبر کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے ٹاس ہوا تو میڈیا کوہلی کے فیصلے کو سراہنے لگا مگر مجھے جیت کا یقین اس لئے ہو گیا تھا کہ برسوں کا تجربہ رکھنے والے کامیاب کپتان عمران خان نے صرف ایک روز پہلے کہا تھا کہ ’’پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنی چاہئے کیونکہ پاکستان کے پاس بائولرز بہت اچھے ہیں‘‘ عمران خان کی اس آرزو کو خود ہی کوہلی نے پورا کر دیا۔ پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنے کا موقع مل گیا، میں یہاں میچ کی پوری تفصیلات تو نہیں لکھ سکتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ پاکستانی بلے بازوں نے انڈین بائولروں کا بھرکس نکال دیا، وکٹ کے حصول کی خواہش میں بھارتی بائولرز چھکوں اور چوکوں کی بارش سہتے رہے، وہ جس بیٹنگ کا مذاق اڑایا کرتے تھے اسی پاکستانی بیٹنگ نے بھارتیوں کو دھول چٹا دی۔ پاکستانیوں نے بھارتی ٹیم کے سامنے رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ فیلڈنگ کے دوران کوہلی کا ’’چہرہ‘‘ مایوس تھا۔ جب بھارتی ٹیم نے بیٹنگ شروع کی تو اسے پاکستانی بائولرز نے تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ عامر نے تو آغاز ہی میں بھارتی ٹیم کو اکھاڑ کے رکھ دیا تھا، بھارت کے نامور بلے باز، محمد عامر کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ رہی سہی کسر حسن علی نے پوری کر دی۔ جس بھارتی ٹیم کو بلے بازوں کی ٹیم کہا جاتا تھا، اُس کے سات بلے باز تو ڈبل فگر کو بھی نہ چھو سکے۔ بھارتی بڑی کوشش بھی کرتے تو رنز کا پہاڑ کہاں پورا ہونا تھا۔ 338کے سکور میں 114رنز تو صرف فخر زمان کے تھے۔ قوم کی دعائوں اور خواہشات کے مطابق بھارت کو پاکستان نے 180کے بڑے مارجن سے ہرا دیا۔ اس جیت پر پورے پاکستان کے علاوہ بیرونی دنیا میں بھی بھرپور جشن منایا گیا، خاص طور پر سری نگر میں منایا جانے والا جشن دیدنی تھا جو بھارتی فوج سے برداشت نہ ہوا، اُس نے فوری طور پر سری نگر شہر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ ساتھ ہی انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیا مگر اس سب کے باوجود کشمیری نوجوان سری نگر کے لال چوک میں خوشیاں مناتے رہے۔
اگرچہ قومی کرکٹ ٹیم کی جیت پر پوری قومی سیاسی قیادت نے مبارکباد کے پیغامات دیئے ہیں مگر پیغامات کے اس مرحلے پر پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سب پر بازی لے گئے۔ ابھی آخری کیچ سرفراز کے ہاتھوں میں تھا کہ آرمی چیف کی طرف سے مبارکباد کا پیغام آ گیا، ساتھ ہی انہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کو عمرہ ادا کروانے کا پیغام بھی دے دیا۔ کرکٹرز کے لئے کچھ اور انعامات کا بھی اعلان ہوا ہے۔ہمارے ملک میں بڑا ٹیلنٹ ہے اس کی تازہ مثالیں حسن علی اور فخر زمان کی صورت میں نظر آئی ہیں۔
جس وقت پاکستانی جیت کا جشن منا رہے تھے عین اسی وقت بھارت میں اپنے کھلاڑیوں کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا، بھارتی میڈیا کوہلی اور پانڈیا سمیت باقی بلے بازوں کو رگید رہا تھا، بھارتی رو رہے تھے، ان کی بیویوں نے کھانا بنانا چھوڑ کر سارا وقت میچ پر لگا دیا تھا، غصے کی تیز لہروں کو دیکھ کر بھارتی حکومت نے کرکٹرز کے گھروں پر پولیس تعینات کر دی ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل آصف غفور نے بھارتیوں کو ’’ہیپی فادرز ڈے‘‘ کا پیغام بھیج دیا ہے جس کی میرے ایک دوست نے بڑی خوبصورت وضاحت کی ہے، دوست کا کہنا ہے کہ باپ ہمیشہ بیٹے سے بڑا ہوتا ہے، آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان چودہ اگست کو بنا تھا جبکہ انڈیا پندرہ اگست کو بنا تھا، اس اعتبار سے پاکستان، انڈیا سے بڑا ہے لہٰذا باپ کا درجہ پاکستان ہی کو حاصل ہے۔
بعض ٹی وی چینلز یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ پاکستان نے جب کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا تو اس دن بھی بائیس رمضان المبارک تھا، میں یہاں چھوٹی سی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان نے کرکٹ کا عالمی کپ 25مارچ 1992ء کو جیتا تھا، تب بھی رمضان المبارک کا مہینہ تھا مگر تاریخ بائیس نہیں بلکہ بیس تھی جبکہ اب جب پاکستان جیتا ہے تو 18جون 2017ء ہے، 18جون 2017ء کو رمضان المبارک کی بائیس تاریخ تھی، دو دن کا فرق ہے، تاریخ میں غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے۔
خوشی کے ان لمحات میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے بڑی اہم باتیں کی ہیں مثلاً ’’ٹیم ورک کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، پاکستان خطرے میں متحد ہے‘‘۔ یہ باتیں تو انہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کی جیت کے بعد کہیں مگر ان باتوں سے بھی کچھ اہم باتیں جنرل باجوہ نے 16جون کو این ڈی یو میں کیں۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نیشنل سیکورٹی اینڈ وار کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ہمہ وقت متحرک رہنے والے جنرل باجوہ کہنے لگے ’’اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں چرا کر دہشت گردی کو شکست نہیں دی جا سکتی، دہشت گردوں کا کوئی مذہب، رنگ اور نسل نہیں ہوتا۔‘‘ انہوں نے کورس کے شرکاء کو کھل کر بتایا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کر رہا ہے، پاک فوج ملکی سلامتی کے لئے پرعزم ہے، پاک فوج ہر طرح کے خطرے کا مکمل جواب دینے کے لئے تیار ہے۔ سپہ سالار نے کورس کے شرکاء کو اندرونی اور بیرونی سیکورٹی کے حوالے سے پوری آگاہی دی۔ یہاں جنرل باجوہ نے ایک اور بات بہت اہم کی کہ ’’ریاستی اداروں کے تعاون سے ہر خطرے سے نمٹا جا سکتا ہے مگر اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں چرانے والوں کو کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس تمام صورتحال میں پاک فوج ملکی دفاع اور سلامتی کے لئے پرعزم ہے۔‘‘
اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کی پوری گفتگو کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ گفتگو ایک ایسے سچے پاکستانی کی ہے جو ہر لمحہ وطن عزیز کے بارے میں نہ صرف فکرمند رہتا ہے بلکہ ملکی دفاع کے لئے پرعزم بھی ہے۔ جنرل باجوہ اداروں کے احترام پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا دل ہر محب وطن پاکستانی کی طرح اس وقت دکھی ہوتا ہے جب لوگ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے بلکہ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے ہیں۔ اگر اس لمحہ فکریہ کو دیکھیں تو پچھلے ایک مہینے میں ہونے والی سیاستدانوں کی گفتگو خاص طور پر حکومتی نمائندوں کی گفتگو کسی طور بھی مناسب نہیں تھی، کیا نہال ہاشمی سمیت دوسرے لیگی رہنمائوں کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ مختلف اداروں پر تنقید کریں، مختلف لوگوں کو دھمکیاں دیں کہ ان کا جینا حرام کر دیا جائے گا، ایسی گفتگو کرنے والے سیاستدانوں کی پارٹیوں کو سوچنا چاہئے۔
قومی کرکٹ ٹیم کی جیت پر سب سے پہلے مبارکباد کا پیغام دے کر جنرل باجوہ نے بتا دیا کہ وہ قوم کی ہر خوشی میں شریک ہوتے ہیں بلکہ ان کے لئے پاکستان کی فتح کا لمحہ ہی سب سے اہم لمحہ ہوتا ہے، پاکستان کی محبت میں سرشار لوگوں کو دیکھ کر مجھے سرور ارمان کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ ؎
جب تلک اس بدن میں لہو ہے وطن
زندگی ہے وطن، آبرو ہے وطن

.