کرکٹ ٹیم کی طرح قانون سازوں کی ٹیم

June 22, 2017

اقتصادی کالے جادو کے ماہر اسحق ڈار کے برعکس میں اپنا یہ اعترافی بیان واپس نہیں لوں گا بلکہ اس پر قائم رہوں گا کہ مجھے کرکٹ کی قطعاً کوئی سمجھ نہیں اور نہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ جس شے نے لڑکپن جوانی میں نہ لبھایا اب کیا لبھائے گی لیکن خوش میں بھی بہت ہوں کیونکہ عرصہ دراز بعد سب ہی بہت خوش ہیں اور اس خوشی کی مختلف وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ہماری نوخیز اور ناتجربہ کار ٹیم جیت گئی۔دوسری وجہ یہ کہ اس ٹیم نے ہمارے جڑواں حریف بھارت کو بری طرح بہترین طریقے سے شکست دی اور لگے ہاتھوں اس بات کا فیصلہ بھی کردیا کہ باپ یعنی ابا جی یا پتا جی کون ہیں۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ابا جی یا پتا جی کہنے سے بندے کاا سٹیٹس تبدیل نہیں ہوتا اور ماتا جی کی نظروں میں اس کا مقام ایک سا رہتا ہے۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ ابا جی ’’فادرز ڈے‘‘ کے آگے پیچھے ابا جی قرار پائے۔ میں نے ادھر ادھر سے سن سنا کے اور پڑھ پڑھا کے اپنی ٹیم کو ناتجربہ کار لکھا اور لکھتے ہوئے بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ اللہ پاک پاکستان کو’’تجربہ کاروں‘‘ سے محفوظ رکھے جو’’تیسری باری‘‘ کو تجربہ کاری سمجھ رہے ہیں۔ کلچر ہمارا یہ ہے کہ جو35،40سال کے تجربہ سے لیس ہو، اس لینجھ لسوڑھے کے بارے میں سیانے کہتے ہیں کہ تجربہ اس ذات شریف کو سال دو سال کا ہی ہے جسے یہ پینتیس چالیس بار ریپیٹ کرچکا ہے۔ اس فتح سے اک اور ’’انکشاف‘‘ بھی ہوا ہے، اک خوبصورت سبق بھی ملا ہے کہ’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی‘‘۔ کرکٹ ٹیم کے بیشتر یا شاید سب ہی نوجوانوں کا تعلق ماڑے خاندانوں سے ہے۔ تعلیم بھی واجبی واجبی سی کہ انگریزی تو دور کی بات، اردو بھی پنجابی میں بھگو بھگو کر بولتے ہیں لیکن اپنے کام کے دھنی۔ تینوں شعبوں میں یکتا اور وہ بھی ایسے کہ حریف ٹیم کا کپتان بھی کھلے دل سے داد دینے پر مجبور ،تو کھیل کے اندر کھیل میں پوشیدہ سبق یہ ہے کہ یہ لوگ جہاں بھی ہوں گے، بہترین انداز میں پرفارم کریں گے۔ یہ لکھتے لکھتے میں کئی قلم گھسا بیٹھا کہ انہی طبقات کے بچے جج، جرنیل، بیوروکریٹ، شاعر، ادیب، مصور، ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی سپیشلسٹ، گلوکار، موسیقار غرضیکہ کسی بھی شعبہ میں اپنا آپ منوا سکتے ہیں لیکن اسمبلیوں میں نہیں جاسکتے، عوام میں سے ہیں لیکن عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتے۔ یہ ہر فیلڈ میں شاہکار بنا سکتے ہیں لیکن اس سٹراند مارتے سازشی نظام کی وجہ سے قانون نہیں بنا سکتے۔ یہ ہر میدان میں ریکارڈ سازی کرسکتے ہیں، قانون سازی عملاً ان کے لئے بین ہے یعنی اصل کام پر ان لوگوں کی سو فیصد اجارہ داری ہے جو اس ملک کی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو نہ قرار نصیب ہے نہ وقار۔یہ شیطانی کھیل ایسا ہی ہے جیسے کسی کے پاس 20 کروڑ ایکڑ زمین موجود ہو اور وہ بدبخت صرف20ایکڑ زمین کو ہی بار بار کاشت کرتا چلا جائے اور باقی کروڑوں ایکڑ اراضی مسلسل بنجر بے آباد پڑی رہے۔ یاد رہے کہ ایک قطعۂ اراضی پر بار بار ایک ہی فصل کاشت کرتے جائیں تو وہ قطعۂ اراضی اپنا جوہر کھو دیتا ہے اور جدید ترین دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی ایسی نہیں جو20ایکڑ زمین سے 20 کروڑ ایکڑ زمین جتنی فیصل اٹھا سکے چاہے اسے متروک طریقوں سے ہی کاشت کیا جارہا ہو۔ ہمارے ہاں یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہر صوبہ سے گنتی کے چند مخصوص خاندان سیاست کے کھیل پر قابض ہیں، بہت سو کی جڑیں قیام پاکستان سے بھی پہلے تک جاتی ہیں جو دوسری تیسری چوتھی سطح کے لیڈرز یا قانون ساز ہیں تو یہ صورتحال کسی فحش مذاق سے کم نہیں۔عوام میں سے ٹیم اٹھائی ا ور تھوڑا سا میرٹ ڈالا تو نتیجہ دیکھ لو.........اس گمنام ناتجربہ کار کرکٹ ٹیم کی طرح قانون سازوں کی ٹیم بھی عوام میں سے اٹھائو تو دیکھو ملک کیسے اٹھتا ہے۔ ایسا ماحول پیدا کرو کہ عوام میں سے عوام کے جنیوئن نمائندے آگے آئیں ، پھر وہ جانیں اور ان کا کام۔ المیہ یہ کہ نظر بٹوئوں کے طور پر’’چند عوام‘‘ حادثاتاً اسمبلیوں تک پہنچ بھی جائیں تو بہت ہی معمولی اقلیت ہونے کے باعث کان نمک میں نمک ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی آبادی کے تناسب سے بھاری اکثریت میں ہوں گے تو باقی خود ہی ان کے سامنے’’ایکلپس‘‘ ہوجائیں گے ، تب ہی عوام کی نمائندگی کا حق ادا ہوگا۔ہمارے ہاں یہ تکیہ کلام بہت مقبول ہے کہ یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں تو کوئی مجھے سمجھائے کہ آج تک یہ ’’ٹیلنٹ‘‘ قانون سازی کی کرکٹ میں ایک آدھ بار بھی دکھائی کیوںنہیں دیا؟ وہاں تک صرف’’سرے محل‘‘ ’’پانامے‘‘ اور’’ڈیزل‘‘ کے دریا ہی کیوں پہنچ پاتے ہیں؟عوام کی جعلی نہیں اصلی، مصنوعی نہیں جنیوئن، دو نمبر اور دس نمبر نہیں ایک نمبر شرکت اور شراکت کے بغیر کوئی الٹا بھی لٹک جائے تو بامعنی تبدیلی ناممکن رہے گی۔ پانی چلتا رہے تو پاک ہوتا ہے، زمین الٹتی پلٹتی رہے تو زرخیز رہتی ہے لیکن یہاں تو جن جپھا ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا لیکن کب تک؟ایمان کا حصہ ہے کہ بیشک وہ انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ پریشانی کی وجہ تو یہ تھڑدلی اور کمینگی ہے کہ مجھ جیسے اپنی زندگی میں اس میکرو تبدیلی کا آغاز دیکھنے کے’’لالچ‘‘ میں مبتلا ہیں۔

.