سیاسی منظر نامہ‘ کوئٹہ واقعہ‘ ہمارے ملک میں قانون کی بے چارگی کا اظہار

June 29, 2017

اسلام آباد (طاہر خلیل) قانون کی کتابوں کے دیپاچے میں قانون بارے لکھا ہے ’’قانون وہ جال ہے جس میں بڑی مچھلی تو جال پھاڑ کر نکل جاتی ہے اور چھوٹی مچھلی اس میں پھنس جاتی ہے‘‘ سعاد ت حسن منٹو کے مشہور زمانہ ڈرامہ ’’نیا قانون 1935‘‘ کا کردار منگو کوچوان بھی قانون کو بہت اہمیت دیتا تھا کہ نیا قانون یکم اپریل 1935کو آئے گا۔ جس کے لاگو ہونے کے بعد وہ بحیثیت ہندوستانی آزاد ہو جائے گا اور وہ اپنے مخالف گورے کو خوب سبق سکھائے گا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ اس کی سوچ غلط تھی اور قانون صرف کتابوں میں آیا تھا۔ ہمارے ملک میں قانون کا جو حال ہے اس کی بے چارگی کا اظہار چھ روز قبل کوئٹہ کے جی پی او چوک پر فرائض انجام دینے والے سارجنٹ حاجی عطاءاللہ کو حکمران جماعت کی اتحادی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی کی گاڑی سے کچلے جانے کے افسوسناک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ جس میں پولیس نے دانستہ ایم پی اے کو بچانے کے لئے نامعلوم ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ حالانکہ جیو نیوز سمیت دیگر چینلز نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت کردیا تھا کہ جس وقت سارجنٹ کو کچلنے کا واقعہ ہوا گاڑی اچکزئی چلارہے تھے اور پھر اچکزئی نے ٹریفک پولیس اہلکار کے اہل خانہ کو ہرجانے کی ادائیگی کا اعلان کرکے نہ صرف اعتراف جرم کیا بلکہ اپنے طرز عمل سے یہ بھی ظاہر کیا کہ ملکی قانون‘ ادارے محض مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ آپ کا جودل چاہے کریں۔ جب چاہیں کسی سے جینے کا حق چھین کرموت کا پروانہ اسکے ہاتھ میں تھمادیں۔ کوئی آپ کو روکنے کی جسارت نہیں کرے گا۔ اگر گرفتار ہو بھی گئے تو اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ آپ کو ہتھکڑی نہ لگے‘ حوالات اور جیل میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ قیدی کی حیثیت سے آپ کو ہر وہ آسائش فراہم کی جائے جس سے استفادہ کرنا کسی بھی شہری کی آرزو اور تمنا ہو سکتی ہے۔ یہ ہماری سوسائٹی کے ایسے تضادات ہیں جن پر جتنا شرمندہ ہوا جائے کم ہے ظلم و زیادتی کے ماحول میں پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا ایک حقیقی تصور چیف جسٹس آف پاکستان کے سوموٹو نوٹسز نے اجاگر کیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمرے کی ادائیگی پر جانے سے قبل بروقت نوٹس لے کر تصویر کا روشن پہلو آشکار کرکے ستم رسیدہ خاندان کی داد رسی کی جسے ہرجانے کی وصولی کے لئے صوبے کے بااثر عہدیداروں کے دبائو کا سامنا تھا۔ 20جون کوکوئٹہ کے ریڈزون کے قریب یہ واقعہ افطار سے چند لمحے قبل پیش آیا تھا مرحوم سارجنٹ عطااللہ دوعشروں سے کوئٹہ میں فرائض کی ادائیگی کرتا رہا۔ ایم پی اے کے ہاتھوں مارے جانے والے عطااللہ کی نزاعی داستان بھی المیہ ہے کہ اس کے محکمے کے سینئر افسر سارے واقعے سے نہ صرف لاتعلق رہے بلکہ انہوں نے ملزم ایم پی اے کو بچانے کے لئے ہر وسیلہ اختیار کیا۔ اس حوالے سے جیونیوز اگر واقعے کو ہائی لائٹ نہ کرتا تو یقین جانئے کہ ’’ملزم‘‘ نامعلوم ہی رہتا۔ کوئٹہ میں یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ چند ماہ پہلے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ہی ایک اور ایم پی اے نے گورنر ہائوس کے قریب احتجاجی مظاہرین پر اپنی گاڑی چڑھا دی تھی۔ کوئٹہ ٹریفک پولیس سارجنٹ کے اس ایک دلخراش واقعے نے وی آئی پی کلچر اور قانون کے تضادات کھول کر رکھ دیئے ہیں۔ اور یہ حقیقت بھی عیاں کر دی کہ جمہوری دور ہونے کے باوجود اگر آج جمہوری کلچر فروغ پذیر نہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ادارے کمزور اور اشرافیہ بالادست ہے۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے سیاستدانوں کا غیر جمہوری طرز عمل ہے سول حکمرانی میں شامل مخصوص عناصر کی نگاہ میں عام لوگوں کی اوقات حشرات الارض سے زیادہ نہیں ایسے طرز فکر میں سزا و جزا کے نظام کا مخدوش ہونا خلاف حقیقت نہیں۔ تاہم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک راستہ ضرور دکھایا کہ جس طرح ہر اندھیری رات کی ایک صبح ضرور ہوتی ہے اسی طرح ہر تصویر کے بدصورت اور روشن رخ ضرور ہوتے ہیں۔