ڈاکو راج کا منظر نامہ

July 02, 2017

آج تو ہر خبر یتیھون کی سمفنی جیسی ہے۔ سمجھ نہیں آتی آدمی کس کس پر سر دھنے۔ سیکیورٹی کمیشن کے افسران نے اعتراف کرلیا کہ چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ہیراپھیری کی گئی۔ یہ لذیز سی تردید بھی آگئی ہے کہ ’’ایس ای سی پی‘‘ کی غلطی کا ذمہ دار شریف خاندان کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔سچ تو یہ ہے کہ اوتاروں کے اس خاندان کو کسی بھی قسم کی ہیراپھیری کیلئے ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ سب کچھ دوسروں اور دشمنوں کا کیا دھرا ہے کیونکہ ان شرفاء میں سے ہر کوئی چلتا پھرتا’’نظریہ پاکستان‘‘ کیا خود جیتا جاگتا پاکستان ہے اور ان سے ننگے ترین تضادات بارے سوال پوچھنا دراصل ملک کے خلاف ’’سازش‘‘ ہے حالانکہ یہ سب مکافات عمل کا کرشمہ اور کمال ہے۔ میں نے دو دن پہلے سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر شہلا رضا کو ٹی وی کی سکرین پر شعلے برساتے دیکھا حالانکہ وہ بہت مہذب اور متوازن خاتون ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر لطف اندوز ہوتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ یہ لوگ جو آج روتے پھر رہے ہیں، انہوں نے دوسروں کو کس کس طرح بے رحمی سے رولا اور رلوایا ہے۔ شہلا رضا نے بے نظیر اور بیگم بھٹو کے خلاف ان لوگوں کے غلیظ پروپیگنڈے کی یاد دلائی۔ بے گناہ بے نظیر بھٹو کو کینگرو کورٹس میں گھسیٹنے کی یاد دلائی اور یہ سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ ان لوگوں نے خود شہلا رضا پر بھی قتل کے جھوٹے مقدمے بنائے اور لے پالک ججوں کے ذریعہ ضمانت نہ ہونے دیتے تھے۔ شہلا رضا نے مخصوص سیاق و سباق کے ساتھ بجا طور پر ’’لغت‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا ’’ان کے اس طرح رسوا ہونے پر قبروں میں میرے ماں باپ خوش ہورہے ہوں گے جن کی بیٹی کو انہوں نے دربدر کیا تھا‘‘ تب مجھے سلمان تاثیر پر تھانے میں ہونے والے مظالم بھی یاد آئے اور زرداری کا یہ تازہ ترین بیان بھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اصل احتساب کی ’’الف‘‘ دیکھتے ہی ان کی چیخیں نکل رہی ہیں حالانکہ ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں۔ واقعی یہ تو دھاندلیوں، زیادتیوں کے کفارہ کی پہلی قسط بھی نہیں۔ ان کے احتساب کیلئے تو ایک سابق آئی جی پنجاب کی وہ رپورٹ ہی کافی ہے جس میں بتایا گیا کہ میرٹ کو روند کر کس طرح اپنے جرائم پیشہ پالتوئوں کو پولیس فورس میں بھرتی کیا گیا۔ اداروں کی تباہی، میرٹ کی موت، اندھی اقربا پروری بلکہ سفلہ و چمچہ پروری، کرپشن کی افقی و عمومی پروموشن، رولز کو ریلیکس اور ABUSE کرنے کے کلچر کی آبیاری اور سرکاری ملازموں کو ذاتی مالشیئے بنانے تک کی لمبی فہرست ہے کہ انہوں نے گورننس کے نام پر کیسے کیسے گل کھلائے۔ ایک کتاب لکھی جانی چاہئے جس کا عنوان ہو۔’’پاکستان .....شریف خاندان سے پہلے اور بعد‘‘ہر قیمت پر حصول زر کی وحشیانہ دوڑ کے موجد ہیں یہ لوگ۔ جسے یقین نہ آئے وہ صرف اتنا دیکھ لے کہ سیاست میں ان کی تشریف آوری سے پہلے صوبائی اور قومی اسمبلی کا الیکشن کس بھائو پڑتا تھا اور اب کس بھائو پڑتا ہے؟ ہیروئن فروشی سے کہیں زیادہ منافع بخش اس کاروبار سیاست میں ان سے پہلے کتنے ’’پراپرٹی ڈیلرز‘‘ عوامی نمائندے بنتے تھے اور آج کتنے اس گنگا میں اشنان فرما رہے ہیں؟ کوئی سنجیدگی سے سروے کرے تو یہ روح فرسا انکشاف قومی طبیعت صاف کردے گا کہ پاکستانی عملاً بالواسطہ یا بلاواسطہ پراپرٹی ڈیلروں کے پاس گروی پڑے ہیں اور اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ یہ لوگ اس ملک کو دلدلوں سے نکالیں گے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس ذہنیت کے نزدیک پاکستان بھی پارک لین کے ایک اپارٹمنٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ بیرون ملک پراپرٹی خریدنے کی جو وبا پاکستان میں پھیلی، ہندوستان کی سیاست میں کیوں نہیں پھیلی حالانکہ چوری چکاری میں وہ بھی کم نہیں لیکن ’’گھر‘‘ کو لوٹ کر مال مسروقہ گھر میں ہی رکھتے ہیں۔ ٹیکس چوری کا شک پڑ جائے تو بڑے سے بڑے پھنے خان کے بیڈز سے لیکر واٹر ٹینکس تک ادھیڑ دیئے جاتے ہیں۔ نریندر مودی ولن ہے، وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ تک پہنچا ہے لیکن بیرون ملک تو کیا، اندرون ملک بھی شاید ہی اس کی کوئی جائیداد ہو۔ مودی کا’’چائے خانہ‘‘ تو سیون سٹار ہوٹلوں کی چین میں تبدیل نہ ہوسکا تو یہ منتر انہیں کہاں سے ملا کہ خود تو کل وقتی ’’کاروبار سیاست‘‘ میں مصروف رہے لیکن ’’کاروبار‘‘ پھیلتے پھیلتے پاناما تک پہنچ گیا۔یہ انہی کا کمال ہے کہ مجھ جیسے یہ لکھنے کہنے پر مجبور ہوئے کہ ہمارا مسئلہ تباہ حال اقتصادیات نہیں، زوال زدہ اخلاقیات ہے۔ انہوں نے معاشیات میں نقب لگائی ہوتی تو شاید ہم جیسوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی لیکن انہوں نے تو ہوس زر میں دانستہ یا نادانستہ اجتماعی اخلاقیات کا ہی جنازہ یوں نکالا کہ معاشرہ میں ’’رول ماڈلز‘‘ ہی تبدیل کر کے رکھ دیئے۔ ان کی سیاست سے پہلے ’’سول سروس‘‘ ذہین محنتی نوجوانوں کا خواب ہوتی تھی جبکہ آج کسی پڑھے لکھے گھر کا قابل بچہ اس پر تھوکنے کو بھی تیار نہیں تو وجہ صرف اتنی ہے کہ کوئی باشعور، باضمیر دو دو ٹکے کے کروڑ، ارب پتی جمہوری کن ٹٹوں کو جواب دہ ہونا پسند نہیں کرتا سو اب سول سروس کی طرف کچرا ہی رجوع کرتا ہے تو کوئی ہے جسے اس کے انجام کا اندازہ ہو؟یہ کون لوگ ہیں جو ’’رعایا‘‘ میں کیمروں کے سامنے امدادی خیراتی چیک بانٹتے ہیں؟یہ کیسی نوٹنکیاں ہیں جن کی گڈ گورننس کا گھٹیا میک اپ اتارنے کیلئے ساون کے چند چھینٹے ہی سونامی بن جاتے ہیں؟یہ کس جمہوریت کے چیمپینئز ہیں جوسندھ میں نیب قوانین کو غیرموثر قرار دے کر صوبائی کابینہ کو ’’اپنا احتساب ادارہ بنانے کی اجازت دیتی ہے تو اسد عمر کو یہ کہنا پڑتا ہے ’’یہ زرداری کو ڈکیتی کی اجازت ہے‘‘۔آیئے ڈاکو راج کے ڈراپ سین کی دعا کریں۔