انصاف کی بلاتاخیر فراہمی

July 16, 2017

اسلام آباد میں گزشتہ روزپاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کی سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ایک سال میں عدالت عالیہ نے ایک لاکھ 33ہزار سے زائد مقدمات نمٹائے ہیں، جسٹس سسٹم کو روایتی ڈگر سے ہٹا کر جدید ٹیکنالوجی سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں مقدمات میں مصالحت کیلئے اے ڈی آر مراکز قائم کر دیئے گئے ہیں جس سے بیس بیس سال تک چلنے والے مقدمے گھنٹوں میں ختم ہو رہے ہیںتاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں قانونی پیچیدگیوں، ججوں کی تعداد کم اور مقدمات زیادہ ہونے کی وجہ سے انصاف کا حصول اب بھی آسان نہیں۔ عدل کے کمیاب ہونے کی ایک بڑی وجہ قوانین کا غیر موثر اور فرسودہ ہونا بھی ہے۔ ہمارا نظامِ انصاف آج بھی 1860ء میںتشکیل پانے والے مجموعہ تعزیرات پر قائم ہے جس کی وجہ سے بالخصوص ماتحت عدالتوں میں سالہا سال تک مقدمہ چلنے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ سائلین عدالتوں میں انصاف کیلئے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔ وقت اور پیسے کے بے تحاشا ضیاع کے باوجود فریقین کو انصاف نہیں مل پاتا بعض افراد تو انصاف کا انتظار کرتے کرتے ہی دنیا ہی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں عدالتی اصلاحات بہت ضروری ہیں جسٹس منصور علی کا کہنا ہے کہ آئی ٹی کی مدد کے بغیر عدلتی نظام کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جا سکتا، ایکس کیڈر کورٹس کو عدالتی نظام کا مکمل حصہ بنانا ضروری ہے تاکہ ہر سیکٹر میں یکساں بنیادوں پر ترقی ہو اور مقدمات کا جلد تصفیہ ممکن بنایا جاسکے، نیز یہ کہ عدالتوں میں ہڑتال کلچر ختم کرنے سے لاکھوں لوگوں کے زیر التوا مقدمات کے جلد فیصلوں میں مددمل سکتی ہے۔ عدالتی نظام میں 1995ء میں کمپیوٹر متعارف کروایا گیا تھا لیکن اس کے بعد کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہو سکی اگرچہ محدود پیمانے پر آئی ٹی عدالتیں کام کر رہی ہیں مگر ضرورت ہے کہ ان کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلایا جائے اور عدالتوں کو ضروری سہولتیں مہیا کی جائیںتاکہ انصاف کی بلاتاخیر فراہمی اور مقدمات کی بلاتعطل سماعت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔