عوامی مینڈیٹ پر تیسرا حملہ؟

July 20, 2017

پاناما اسکینڈل ابھی سامنے آیا ہی تھا کہ ہم نے ان کالموں میں جناب وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنی نشری تقریر میں قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بلا تاخیر یہ کہتے ہوئے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیں کہ جب تک میں اپنے دامن پر لگے ناجائز و بدنما داغ کو دھلوا نہیں لیتا میں عوامی اعتماد کی اس ذمہ داری پر نہیں بیٹھوں گا البتہ ناچیز کی یہ رائے تھی کہ حکمران پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پارلیمانی پارٹی کو اسی طرح چلائیں جیسے سونیا گاندھی نے لوک سبھا میں کانگریس کو چلایا۔ انسانی فطرت ہے کہ کوئی بھی خرابی ابتدا میں بالعموم ہلکی سمجھی جاتی ہے جب وہ اپنے پر پرزے نکالتی ہے تو ادراک ہوتا ہے کہ اس کا سامنا کسی اور طریقے سے کیا جانا چاہئے تھا۔
بہرحال جو ہوا سو ہوا آج ہمارا ارادہ سچے کھرے دبنگ سیاستدان جناب جاوید ہاشمی کی مفصل میڈیا بریفنگ پر کالم لکھنے کا تھا لیکن JIT کی مبینہ رپورٹ نے ہماری سیاست اور صحافت میں جو بھونچال یا طوفان برپا کر دیا ہے اس سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے پوری پاکستانی سوسائٹی ایک نوع کے ذہنی انتشار و افتراق کا شکار ہو گئی ہے۔ مسئلہ تو زیرِ بحث تھا وزیراعظم کے استعفے کا لیکن بڑھک باز پوری پارلیمنٹ کی رخصتی کا سوچنے لگے۔۔۔سچا یا جھوٹا الزام تو ہے وزیراعظم پر اس میں پارلیمنٹ کا کیا قصور ہے؟ آخر وہ اپنی مدت کیوں پوری نہ کرے؟؟ رہ گیا منتخب وزیراعظم تو وطنِ عزیز میں جتنا اس عہدے کو بے توقیر کیا جاتا رہا ہے پوری دنیا میں اس کی کہیں کوئی مثال ملتی ہے کیا؟ لیاقت علی، خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی مرحوم سے شروع ہو جائیں محمد خاں جونیجو، محترمہ بے نظیر اور محترم نواز شریف تک سب کے کردار کا جائزہ لے لیں آخر کس وزیراعظم کو یہاں مدت پوری ہونے سے پہلے رخصت کرنے کی سازشیں اور اسکیمیں تیار نہیں کی گئیں۔ ایک بھٹو کا اگر استثنیٰ ہے تو یہ بھی یاد کیجیے کہ اگر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر وہ لائے گئے تو پھر پھانسی پر چڑھا کر ان کی لاش راتوں رات نوڈیرو بھیجی گئی۔
آج منتخب وزیر اعظم کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے اس میں بھی کسی قومی ادارے کا قطعی کوئی منفی رول نہیں ہے وہ قوم کے منتخب وزیراعظم ہیں بھلا کوئی قومی ادارہ ان کے خلاف کیوں کوئی سازش کرے گا۔ قومی اداروں کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں ان کے پاس تو اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس نوع کی کسی مکروہ اسکیم یا سازش کا سوچ سکیں۔ ایک ادارے کو بیرونی دشمن کا سامنا ہے تو دوسرے کے پاس ہزاروں مقدمات کے ڈھیر زیر التوا پڑے ہیں۔ پاناما لیکس ہی کو دیکھ لیں اس میں اکیلے نواز شریف ہی کا تو نام نہیں ہے بلکہ تین سو ننانوے دیگر نام بھی ہیں اگر وہ اسی ایک کے خلاف وقت ضائع کرتے ہوئے سازشوں میں الجھیں گے تو دیگر تین سو ننانوے کے خلاف کارروائیاں کب شروع اور کب ختم کریں گے۔
نواز شریف کے خلاف جو کچھ ہوا ہے یا ہونے جا رہا ہے اس میں مسئلہ کسی سازش یا اسکیم کا نہیں ہے مسئلہ صرف کرپشن کا ہے جو کرپشن کرے گا اس کے خلاف احتساب ہو گا چاہے وہ کوئی بھی ہو لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ احتساب ہمیشہ سیاستدانوں کا ہی ہوتا ہے شاید کرپشن کرتے ہی صرف سیاستدان ہیں۔ پاناما لیکس میں جو دیگر تین سو ننانوے نام آئے ہیں وہ یقیناً غلطی سے پڑ گئے ہوں گے۔ ہم میڈیا چینلز والوں کو درخواست کریں گے کہ وطنِ عزیز میں اب تک جتنی بھی منتخب جمہوری حکومتوں کو مقررہ میعاد سے پہلے رخصت کیا گیا ہے ذرا ان کی فرد جرم قوم کو بلاتبصرہ دکھائیں۔ ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف سب کی اولین تقاریر سنایئے یوں لگے گا کہ سب سابق کھلاڑی جیسے نیک پاک اور پارسائی کا مجسمہ تھے جو کرپٹ جمہوری حکومتوں کی کرپشن سے تنگ آکر گویا خدائی حکم کی تعمیل میں یہ امانت و دیانت کا فریضہ سر انجام دینے بادلِ نخواستہ پہنچے تھے۔ ضیاء الحق کے وقت تو باقاعدہ قومی نعرہ ابھرا تھا ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ اور پھر جب انہوں نے وزیراعظم جونیجو کو رخصت کیا تو پوری تقریر میں ان کی کرپشن کا رونا رویا۔
آج ایک طرف تو یہ پروپیگنڈہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ادارہ جاتی کوئی سازش نہیں ہے معاملہ صرف کرپشن کا ہے دوسری طرف وزیراعظم کے اپنے ساتھی جن کی دوستی سہ طرفہ اور ہمہ جہتی ہے انہیں بھری بزم میں یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ آپ نے اداروں سے تصادم کی پالیسی اپنائی تھی اب آپ کو کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ ہماری نظر میں کم از کم اس مرتبہ وزیر اعظم نے جس قدر برداشت اور ٹھہرائو کی پالیسی پیہم اپنائے رکھی ہے وہ ان کے صبر اور حوصلے کا امتحان تھی۔ ایک آئین شکن کو پارلیمانی معافی نہ ملنے کے باوجود جانے دینا، میثاقِ جمہوریت کے باوجود پی پی کے ساتھ سندھ میں زیادتی پی جانا، دھرنا1 کے وقت کیا مسئلہ تھا؟ تب تو پاناما لیکس نہیں آئی تھی۔
دھاندلی کا الزام تھا جو کہیں ایک سال بعد یاد آیا تھا پھر کہاں گیا وہ دھاندلی کا الزام؟ پھر وہ امپائر کی کون سی انگلی تھی جو دھرنا 2 میں بھی نہیں اٹھ سکی تھی کیونکہ کیپیٹل سٹی میں مطلوبہ تعداد میں بندے اکٹھے نہیں کیے جا سکے تھے؟ ڈان لیکس کا مخمصہ کیا تھا؟ اس سب کو حوصلے سے برداشت کیا یا نہیں کیا؟ کتنے مخلص اور با صلاحیت دوستوں کی قربانی دی گئی؟ کیا یہ تصادم کی پالیسی تھی؟ پی پی کے دوستوں کو بھی سوچنا چاہیے گیلانی کے پارلیمنٹ سے ماوراء ہٹائے جانے کو آپ بے اصولی کہتے نہیں تھکتے ہیں تو آج آپ خود اسی بے اصولی کے ساتھی بننے پر کیسے تیار ہو رہے ہیں۔
بایں حالات منتخب وزیراعظم کو مولانا فضل الرحمٰن کی طرح ہمارا مشورہ ہے کہ نواز شریف ڈٹ جائو بھٹو نے دشمنوں کو عیاں کرنے کے لیے جو قربانی دی تھی اس کی نوبت تو اب ہرگز نہیں آنی چاہئے مگر یکطرفہ جسٹس کو اب منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے ورنہ تاریخ کا یہ آپ پر قرض رہے گا۔ قوم جان لے کہ کرپشن تو ایک بہانہ ہے ورنہ جمہوری قتل کا سلسلہ پرانا ہے۔ البتہ جمہوریت کے سامنے اصل چیلنج یہ ہے کہ اپنی صفوں میں استحکام اور دوستوں کی غلط فہمیاں دور کرتے ہوئے متبادل گھوڑا تیار رکھے۔
ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومتِ عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں