عمران خان کا الزام اور رپورٹر کا جواب

July 25, 2017

اسلام آباد (نمائندہ جنگ / احمد نورانی ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن اور ان کے ن لیگی ہمنوا جھوٹ کے بل بوتے پر جتنے مجھ پر حملے کرتے ہیں اتنے ہی بے نقاب ہوتے ہیں۔

تصدیق کرنے کے باوجود میرے متعلق حقائق شائع نہیں کئے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں عمران خان نے آسٹن رابرٹ کی ای میل کا عکس بھی دیا ہے جس میں انہوں نے چیئرمین تحریک انصاف کو بتایا کہ صحافی احمد نورانی نے دو مرتبہ ٹیلی فون اور ایک ای میل کے ذریعے ورلڈ کرکٹ سیریز کے ساتھ کنٹریکٹ سے متعلق سوالات پوچھے ہیں اور خصوصی طور پر یہ پوچھا ہے کہ یہ کنٹریکٹ دو سال کا تھا یا تین سال کا تھا۔

آسٹن رابرٹ نے عمران خان کو آگاہ کیا کہ انہوں نے مذکورہ صحافی کو ٹیلی فون اور تحریری طور پر بتا دیا ہے کہ یہ کنٹریکٹ تین سال کا تھا۔ ادھر رپورٹر احمد نورانی کا کہنا ہے کہ میں ایک اسٹوری پر کام کر رہا تھا تا کہ وہ نکات تلاش کر سکوں جو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی فراہم کردہ منی ٹریل پر ان کے نظریات کو مکمل طور پر ثابت کرسکیں اور نکات بھی جن میں کوئی حقیقت مکمل طور پر غلط بیان کی گئی ہو۔

یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ دیگر تمام معاملات جیسے شریف خاندان کے معاملے میں کیا گیا تھا، جس میں منی ٹریل میں تمام خامیوں کو اس وقت نمایاں کیا گیا تھا جب انہیں معزز عدالت میں جمع کرایا گیاتھا۔ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی نے جیو نیوز کے پروگرام میں سینئر اینکر حامد میر کے 11؍ نومبر2016ء کے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ شریف خاندان کی جانب سے پیش کردہ منی ٹریل کی خامیوں کو نمایاں کرنے والی دی نیوز کی اسٹوری جس کا عنوان تھا، ’’شریف خاندان نے 13؍ بنیادی سوالات کے جواب نہیں دیے‘‘، پر پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور اسے پڑھا گیا تھا۔

یہ واحد اسٹوری نہیں تھی، ایسی کئی تھیں۔ 23 جولائی اتوار کی رات میں نے ہاٹ میل کے نجی ای میل ایڈرس پر ایک میل بھیجی، یہ ای میل ایڈرس عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے خط سے ملا جو یہ ثابت کرنے کے لئے تھا کہ انہوں نے کیری پیکر سیریز سے 75؍ ہزار ڈالر کمائے تھے۔ یہ خط ایک آسٹریلین شہری آسٹن رابرٹسن کی جانب سے تھا۔ مجھے اس نامعلوم نجی ای میل سے گزشتہ رات جواب موصول ہوا لیکن مجھے مزید تصدیق کی ضرورت تھی اور میری اسٹوری میں کئی نکات مکمل نہیں تھے۔ میں جب اگلی صبح جاگا تو سوشل میڈیا پر اور کچھ منتخب ایجنڈا رکھنے والے نیوز چینلز پر،جو غیر صحافیانہ اپروچ رکھتے ہیں، شور شرابہ مچا ہوا تھا۔ خبر یہ تھی کہ مجھے آسٹن سے کچھ حقائق کی تصدیق پر مبنی جواب ملا ہے اور میں نے وہ رپورٹ نہیں کیے۔ میں جس میڈیا ہاؤس کے لئے کام کرتا ہوں اس پر بھی حملہ کیا جارہا تھا۔ یہ میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے کیو نکہ دارالحکومت میں کام کرنے والی کچھ طاقتیں اور سیاسی جماعتوں خاص طور پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگز ہمیشہ مجھ پر اور میرے صحافتی کام پر مستقل بنیادوں پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔

مذکورہ اسٹوری پیر کے روز مکمل کرکے فائل کردی گئی تھی۔یہ آج شائع ہوئی ہے۔پی ٹی آئی سربراہ اسے پڑھ سکتے ہیں۔میں نےپی ٹی آئی سربراہ کی آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ کے اکائونٹنٹ طاہر نواز سے بھی رابطہ کیا تھا تاکہ ان سے کچھ سوالات کیے جائیں۔تاہم عمران خان اپنے ٹوئٹس میں یہ بات بتانا بھول گئے۔عمران خان کا میرے ساتھ یا دیگر آزاد صحافیوں کے ساتھ جو آنکھیں بند کرکے ان کی ہدایات یا ان کی سیاست پر عمل نہیں کرتے ، ان کے ساتھ اصل مسئلہ کیا ہے۔

فی الوقت ، شریف خاندان کا کیس حتمی مرحلے میں ہےاور دلائل دیئے جاچکے ہیں چاہے جے آئی ٹی نے جو ثبوت اکٹھے کیے ہیں ، وہ متعلقہ الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوں یا نہیں۔پی ٹی آئی چیف بنیادی طور پر اس لیے پریشان ہیں کیوں کہ دی نیوز نے ایسے حقائق بیان کیے ہیں کہ جے آئی ٹی ایک بھی حتمی ثبوت دینے میں ناکام رہی ہے۔جے آئی ٹی رپورٹس کے زیادہ تر حصے خبری کہانیاں ہیں جو متعدد سوالات اٹھاتی ہیں۔تاہم عدالت صرف الزامات یا سوالات کی بنیاد پر سزا نہیں سناتی اور کسی بھی کیس کے حتمی مراحل میں ثبوتوں کی صداقت ہی زیر بحث آتی ہے، سوالات نہیں۔دی نیوز کو کیا کرنا چاہئے؟ غلط طریقے سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جے آئی ٹی نے جو ثبوت پیش کیے ہیں وہ الزامات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں؟صحافی کا کام مختلف ہوتا ہے۔اسے صرف حقائق بتانا ہوتے ہیں ، کسی سیاسی رہنما کو خوش یا ناراض کرنا نہیں ہوتا، قارئین کو حقائق بتانا ہوتے ہیں۔دنیا بھر کےمہذب سیاسی رہنما صحافت کی حیثیت اور وقار کو قبول کرتے ہیں اور ہمیشہ تحقیقاتی کام کو سراہتے ہیں۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ اپنے خلاف آنے والی کسی بھی رپورٹ پر میڈیا شخصیات پر حملے شروع کردیتے ہیں۔تاہم، پی ٹی آئی سربراہ نے پیر کے روز تمام حدود پار کردیں۔اگر آپ سوالات نہیں پوچھتے تو آپ پر پی ٹی آئی اور عمران خان حملے کرتے ہیں۔اس کیس میں بھی مجھ پر حملے سوالات اٹھانے پر ہی ہوئے ہیں۔

یہ پی ٹی آئی سربراہ کا مسلسل وطیرہ رہا ہے کہ وہ خاص طورپر جیو اور جنگ گروپ آف نیوز پیپرز جیسے آزاد میڈیا پر حملے کرتے ہیں ۔ان کے کارکن ، کچھ اور افراد کی حمایت کے ساتھ جیو اور جنگ گروپ کے دفاتر میں متعدد مرتبہ 2014ء میں حملے کرچکے ہیں۔وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ جیو دفاتر پر پہلی مرتبہ حملے نہیں ہوئے۔ہمیں اس فسطائیت کا اس وقت بھی سامنا کرنا پڑا تھا جب جیو اور جنگ گروپ آمروں یا آمرانہ پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہوا تھا۔

جنرل مشرف کے آدمیوں نے پولیس یونی فارم میں 2007ء میں اس وقت حملہ کیا تھاجب جنگ اور جیو گروپ آمر کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف مزاحمت کررہا تھا، یہ بات اب بھی ہماری یادوں میں تازہ ہے۔سچ کے تعاقب کا سفر اس وقت بھی جاری تھی اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔خان صاحب ان سب میں نئے ہیں۔وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ جب انہیں کسی طاقتور کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا تو کون کے یا ان کی سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑا ہوگا۔