اس نے جب’’ تھیوری‘‘ بدل کر بات کی

July 26, 2017

کہتے ہیں زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ اس محاورے پر ہم اپنے بھائی سے ڈانٹ کھا چکے ہیں۔ ہوا یوں کہ یہ محاورہ کہیں بچپن میں ہم نے سنا تھا مگر اس کا اصل مطلب ہم نہیں جانتے تھے۔ ایک دن ہمارے بڑے بھائی سعید لخت بلیڈ سے کوئی کاغذ واغذ کاٹ رہے تھے کہ انہوں نے بلیڈ منہ میں رکھ لیا اور ان کی زبان زخمی ہو گئی۔ ہم نے زخمی زبان دیکھی تو کہہ دیا۔ زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ یہ سن کر اوّل تو ہمارے بھائی صاحب خوب ہنسے۔ اور پھر ڈانٹا کہ تم یہ پڑھتے ہو؟ اس کے بعد وہ دن اور آج کا دن، ہم اپنی طرف سے پوری احتیاط کرتے ہیں کہ کہیں ہماری زبان سے کسی کو زخم نہ لگ جائے۔ اس وقت ہمیں زبان کا زخم اس لئے یاد آیا ہے کہ ہماری سیاست میں آج کل زبان کے ایسے ایسے زخم لگائے جا رہے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ زخم لگانے والے کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا کرتے ہیں کہ اپنی زبان سے وہ دوسروں کو جو زخم لگا رہے ہیں وہ زخم ان کے اپنے جسم پر بھی لگ رہے ہیں۔ ان کے اپنے جسم بھی لہولہان ہو رہے ہیں۔ ہم نے تو یہ محاورہ بھی بھلا دیا ہے کہ ’’گڑ نہ دے گڑ کی سی بات کہہ دے‘‘۔ ویسے تو یہ زبان درازی ہماری سیاست کا حصہ ہمیشہ سے ہی رہی ہے۔ لیکن پاناما پیپرز کے مقدمے کے بعد تو جیسے ہم بالکل ہی اخلاق وآداب سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ جس کے منہ میں جو آ رہا ہے وہ کہے چلا جا رہا ہے۔ جب تک ہمارا یہ کالم چھپے گا ہو سکتا ہے اس وقت تک سپریم کورٹ اپنا محفوظ کیا ہوا فیصلہ سنا چکی ہو۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد بھی یہ زبان درازی ختم نہیں ہو گی بلکہ ہو سکتا ہے اور بھی بڑھ جائے۔ کیسے کیسے نئے لفظ اور نئی نئی ترکیبیں تراشی گئی ہیں اس عرصے میں۔ اس سے ہماری طباعی یا طبع زاد طبیعت کا تو پتہ چلتا ہے، لیکن یہ بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ اخلاقی طور پر ہم کس قعر مذلت میں گر چکے ہیں۔ کہتے ہیں سیاست میں کوئی چیز دائمی نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا۔ سیاست بہت ہی کٹھور دل ہوتی ہے مگر بہترین جنگی حکمت عملی کی طرح سیاست میں بھی پیش قدمی کے ساتھ پسپائی کا راستہ کھلا رکھا جاتا ہے۔ لیکن شاید ہم یہ بات بھی بھول چکے ہیں۔ ہمیں یہ خیال ہی نہیں رہا ہے کہ آج کے دشمن کل کے دوست بھی ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کل کلاں ہمیں آج کے دشمن کو کسی سیاسی مصلحت کے تحت دوست بنانا پڑا تو ہم کس منہ سے ایسا کریں گے؟
لیکن ابھی ابھی ہمیں خیال آیا کہ یہ ہم کس علاقے اور کس کرہ کی بات کر رہے ہیں؟ ہمارے کرہ پر تو شرم اور پشیمانی قسم کا کو ئی وصف ہی نہیں پایا جاتا۔ آج جس جماعت کو ہم منہ بھر بھر کے گالیاں دینے کی مشق کر رہے ہوتے ہیں،کل جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے تو اسی کی شان میں قصیدے پڑھنے لگتے ہیں۔ ہم آج ایک پارٹی میں ہیں تو کل دوسری پارٹی میں۔ آج ہم جس جماعت میں ہزار ہزار کیڑے ڈال رہے ہوتے ہیں تو کل کسی شرم اور کسی پشیمانی کے بغیر اسی جماعت کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں۔ بھلا ہو ہمارے ٹی وی چینلز کا کہ انہوں نے ہمارے لئے یہ آسانی پیدا کر دی ہے کہ ہم ان لوگوں کے چہرے بھی بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک دن ایک جماعت اور ایک سیاسی لیڈر کو برا بھلا کہنے والے جب دوسرے دن اسی جماعت اور اس جماعت کی پالیسیوں کی وکالت کرنے کے لئے اپنے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہوں تو ہم غور سے ان کے چہرے اور ان چہروں پر چھپے ہوئے تاثرات دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید کہیں شرمندگی نظر آ جائے۔ مگر۔ مجال ہے جو کہیں بھی ان کے چہرے پر شرمندگی کا شائبہ تک دکھا ئی دے جائے۔ وہ ایسے بول رہے ہوتے ہیں جیسے وہ ہمیشہ سے یہی کہتے چلے آ رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں یہی تو سیاست ہے۔ اس سیاست کو برا نہ کہو۔ اگر اس سیاست کو برا کہو گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ کسی اور کو دعوت دے رہے ہیں۔
جاوید نقوی انگریزی کے کالم نگار ہیں۔ ہندوستان میں رہتے ہیں اور ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے اخباروں میں کالم لکھتے ہیں۔ صحافت تو خیر ان کا پیشہ ہے اس لئے تاریخ، خاص طور سے سیاسی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہونا ہی چاہئے۔ لیکن مشرقی اور مغربی ادب، اور موسیقی (معاصر اور کلاسیکی) پر جو عبور انہیں حاصل ہے وہ، ہمارے خیال میں اردو یا انگریزی کے کسی اور کالم نگا ر کو حاصل نہیں ہے (معذرت کے ساتھ)۔ اخبار میں وہ جو کالم لکھتے ہیں وہ تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنے کے قابل ہوتا ہی ہے لیکن سوشل میڈیا پر ہلکے پھلکے انداز میں وہ جو طنز و مزاح کے موتی بکھیرتے ہیں وہ انہی کا خاصہ ہے۔ اب وہ ادب ہو، شعر و شاعری ہو یا موسیقی، اپنی پسند میں وہ اپنے دوستوں کو بھی شریک کرتے رہتے ہیں۔ جانے کہاں سے پرانے گانے والوں اور گانے والیوں کے گانے تلاش کرکر کے لاتے ہیں اور ہمیں بھی اس میں شریک کرتے ہیں۔ دو دن پہلے انہوں نے بیگم اختر کی گائی ہوئی ایک غزل کا مطلع لکھا اور پھر صرف ایک لفظ تبدیل کر کے شعر کو کوئی اور ہی معنی پہنا دیئے۔ اس سے پہلے یہ کام کچھ اور لوگ بھی کرتے رہے ہیں لیکن یہاں انہوں نے ہمیں ایک ہتھیار فراہم کر دیا ہے۔ غزل کا مطلع ہے
اس نے جو تیوری بدل کر بات کی
مٹ گئی دنیا مرے جذبات کی
جاوید نقوی نے ’’تیوری کو ’’تھیوری‘‘ میں بدل دیا ہے۔ اور وہ مصرع اس طرح ہو گیا ہے ’’اس نے جو تھیوری بدل کر بات کی‘‘ اس پر بہت سے پڑھنے والوں نے اردو زبان نہ سمجھنے یا شعر کا مطلب کچھ سے کچھ کر دینے کے بارے میں اپنے اپنے تجربے بیان کئے ہیں۔ لیکن ہم اسے تھیوری کے حوالے سے ہی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی جیسی نظریاتی جماعتوں کے ہاں تو کوئی سیاسی تھیوری ہوتی ہو گی مگر دوسری جماعتوں کے ہاں صرف ایک ہی سیاسی تھیوری ہوتی ہے۔ اور وہ ہے کسی نہ کسی طرح حکومت پر قبضہ کرنا۔ پہلے حکومت پر قبضہ کرو، بعد میں سیاسی تھیوریاں بناتے پھرو۔ بلکہ اس کی بھی ضرورت نہیں
ہے۔ اقتدار میں آ گئے تو پھر کسی سیاسی نظریے یا تھیوری کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کم سے کم ہمارے ہاں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایک طرف ترقی کی رفتار تیز کرنے کا نعرہ ہے تو دوسری طرف نیا پاکستان بنانے کا نعرہ۔ دونوں جانب سیاسی پالیسی یا کوئی سیاسی تھیوری نہیں ہے۔ بس، حکومت پر قبضہ کر لو۔ یا جو قبضہ کیا ہوا ہے تو اسے اور بھی مضبوط کرتے رہو۔ ہم جاوید نقوی سے معافی چاہتے ہیں کہ ہم ان کے اس اختراعی اپج کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ مگر ہم زبان کے اچھے یا برے اختراعی استعمال کی بات ہی کر رہے ہیں یعنی اصل میں ہم زبان کے زخم کی بات کر رہے ہیں۔ اور یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہم نے سیاسی نعرے بازی میں اپنی زبان بگاڑ لی ہے۔ اور یہ زبان ایسی بگاڑی ہے کہ ہمارا دہن بھی بگڑ گیا ہے۔