دو فوجی، میں اور وزیراعظم جانتے ہیں ملک کو گھیرے میں لیا جارہا ہے، وزیرداخلہ

July 28, 2017

اسلام آباد(نمائندہ جنگ / نیوز ایجنسیز) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا، وزارت او ر اسمبلی رکنیت سے استعفے کا فیصلہ ایک روز پہلے تک کا تھا، دوستوں سے ملاقات کےبعد فیصلہ بد ل دیا، میں ناراض نہیں ہوں، پارٹی کو قائم دائم رکھنے میں مجھ سے زیادہ کردار کسی کا نہیں، میں نے ساری زندگی پارٹی اور نواز شریف کو دی ۔

دو فوجی ، میں اور وزیراعظم جانتے ہیںملک کو گھیرے میں لیا جارہا ہے ، ملک شدید خطرات میں ہے ، اس وقت چرچے ہیں بربادیوں کے آسمانوں پر ، پاکستان کے اردگرد گہرے بادل منڈلا رہے ، ہم لڑائیوں میں مصروف ہیں، وزارت اور ایم این اے شپ سے استعفیٰ دوں گا ، سپریم کورٹ سے حق میں فیصلہ آیا تو نواز شریف پاؤں زمین پر رکھیںاور معاف کردیں ، اگر خلاف آیا تو صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں ، آپ نے صرف اپنا نہیں ملک کا تحفظ بھی کرنا ہے، بنگلہ دیش کی باتیں کئی سال سےہورہی ہیں تھیں مگر الزام یحییٰ خان پر لگا کیونکہ وہ حکمران تھا ، پارٹی اور قیادت مشکل میںہیں ، نواز شریف کا درد اور تکلیف محسوس کرتا ہوں ۔

تفصیلات کے مطابق جمعرات کو پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ مشاورتی عمل سے الگ رکھنا تضحیک آمیز ہے۔بہت گناہ گار ہوں مگر منافقت نہیں رکھتا، میں اندر سے مشکلات اور سازشوں کا شکار رہا، لوگ دیکھ رہے تھے کہ ایک سیٹ کم ہوجائے تو ہمارا چانس ہےسیاست سے دل اچاٹ ہوچکا۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری زندگی کی مشکل ترین پریس کانفرنس ہے جس کے بارے میں بہت سی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں، میں پارٹی ،سیاسی ماحول اور پاناما لیکس کےحوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں ا س لئے آ ج کوئی سوال نہیں لوں گا۔

چند دن پہلے پریس کانفرنس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ کابینہ کے کلوز سیشن میں مجھے کہنا پڑا، کیوں کہنا پڑا ایک روز پہلے کی پریس ریلیز میں واضح ہے، میں نے کابینہ میٹنگ میں جو کچھ کہا اس وقت یہ بھی بات کی کہ میں اپنے آپ کوچھوٹا محسوس کرتا ہوں کیونکہ کابینہ کے کئی لوگ مجھ سے 25/20 سال چھوٹے ہیں لیکن ان کے تجربے کے لئے بھی یہ باتیں ان کے سامنے کرنا ضروری تھا، میری باتیں میڈیا میں کچھ صحیح اور کچھ غلط رپورٹ ہوئیں۔

میرے اظہار خیال کی وجہ آپ کے سامنے تھی، ایک تو یہ بات میرے لئے شدید تکلیف کا باعث تھی کہ میں ناراض ہوں میں ناراض نہیں ہوں، کبھی دائیں بائیں نہیں دیکھا، میں تو33 سال سے ہر میٹنگ میں موجود ہوتا ہوں ڈیڑھ ماہ سے اچانک یہ کیا ہوا اور مجھے سینئر ترین مشاورتی اجلاسوں میں نہیں بلایا گیا، اس دوران تین دوسرے اجلاس ہوئے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بلایاگیا اور میں گیا، اگر ناراض ہوتا تو نہ جاتا، کابینہ کے اجلاس میں بلایا گیا میں گیا، ناراضی ہوتی تو نہ جاتا۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں میں عرصہ دراز سے نہیں جاتا، جب بلاتے ہیں تو میں جاتا ہوں ، میں بن بلائے کسی میٹنگ میں نہیں جاتا پھرکسی نے کہاکہ میں نے اپنی ٹرین مس کردی، میں نے اپنی ٹرین مس نہیں کی میں کسی آوارہ ٹرین کی سواری نہیں ہوں۔

شیخ رشید صاحب دوسری ٹرین کی سواری آپ کو مبارک ہو۔ میں ایک ہی ٹرین کا سوار ہوں خواہ وہ رکے یا چلے، جب سے سیاست کا آغاز کیا اس وقت سے ایک ہی ٹرین پر بیٹھے ہیں۔ میں پارٹی کے اندر سے مشکلات اورسازشوں کا شکار ہوا ہوں۔پارٹی قیادت سے قربت اور منہ پر بات کہنےکی عادت سے پارٹی کے اندر مخالفین کے سامنے اور تو کوئی چیز نہیں ہوتی تھی وہ 1985 سے آج تک ایک ہی الزام لگاتے آئے ہیں، شہباز شریف ، اسحق ڈار،شاہد عباسی اور خواجہ سعد رفیق نے آج ملاقات کی وہ یہاں موجود تھے اور بضد تھے کہ میں پریس کانفرنس نہ کروں۔ میں نے کل(بدھ کی) شام تک یہی فیصلہ کیا تھا کہ کابینہ اور ایم این اے شپ سے استعفیٰ دے دوں گا اور میں نے بڑا فیصلہ کرلیا تھا اور آئندہ الیکشن میں بھی حصہ نہیں لوں گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مجھ پر ان کی دوستی کا بوجھ ہی نہیں جبر بھی ہے۔

ایک شخص جس نے 33 سال جماعت کودئیے وہ مشکل صورتحال میں ہے۔ مجھے پارٹی سے لگائو اور پیارہے۔ میاں نواز شریف نے بڑی ثابت قدمی اور محنت سے پارٹی قائم کی، نثار پارٹی نہیں چھوڑے گا۔ میرے لئے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں، ہر پارٹی میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو سازش کرتے ہیں یہ قیادت کاکام ہوتاہے کہ وہ انہیں روکیں اور وفادار کو وفادار ہی رہنے دیں۔

شک نہ کریں، وزیر داخلہ نے کہا کہ میں نے تمام عمر نواز شریف کے سامنے سچ کہنے کی جسارت کی، سچ کتنا بھی کڑوا ہو نوازشریف کے سامنے کہتا رہا۔مشکل ترین وقت آیاتو اندر سے سازش چلی اور مجھے مشاورتی عمل سے الگ کردیا گیا، رومن بادشاہوں کی طرح وزیراعظم کو خوشامدیوں نے گھیر رکھا ہے، جولیس سیزر کے ساتھ دو ایسے آدمی ضرور ہوتے تھے جو اس کے کان میں کہتے رہتے کہ آپ انسان ہیں، میرا بھی یہی رول تھا اور میں میاں نوازشریف کے کان میں بات کرنے والوں میں شامل تھا کہ آ پ انسان ہیں۔

تین ماہ پہلے میں نے میاں صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کو ہمیشہ صحیح مشورہ دیا ہے حالانکہ میرے لئے بہت آسا ن کام ہے کہ میں بھی کہوں کہ واہ میاں صاحب آپ کی تقریر زبردست تھی اور آپ اگلا الیکشن بھی دو تہائی اکثریت سے جیتیں گے، یہ وفاداری نہیں، وفاداری یہ ہے کہ غلط کو غلط کہوں ۔میں محسوس کرتا رہا اور پھر میں ان سے پوچھا کہ میں آپ سے جو تلخ باتیں کرتا ہوں کیا آپ کو اچھی لگتی ہیں تو انہوں نے کہاکہ مجھے یہ باتیں اچھی لگتی ہیں، میں سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں، اس کے باوجود یہ معاملات ہوئے کہ مجھے کابینہ میں باتیں کرنا پڑیں، مجھے معلوم ہے کہ کس نے کس جگہ اور کس مقام پر کیا کہا، حکمران سے اصل وفاداری تو یہ ہے کہ انہیں حقیقت کے بارے میں بتایا جائے اور میاں صاحب نے بھی کہا کہ نہیں آپ اچھا کرتے ہیں۔

میں نے وزیراعظم سے کہا آپ نے دوسروں کی باتیں کیوں سنیں، آپ مجھے بلا کر پوچھ لیتے لیکن جب حالات نہیں سنبھلے تو ایک انتہائی فیصلہ کیا۔ انہوں نے ماضی کی کابینہ کے اجلاس کاحوالہ دیا اور کہا کہ اس وقت لالیکا وزیر اطلاعات تھے۔ کابینہ اجلاس میں خوشامدی تقریریں ہورہی تھیں، تو میں نے لالیکا سے کہا کہ آج آپ اعلان کریں کہ خوشامد پر پابندی لگائی جارہی ہے اور کابینہ سے اس کا آغاز کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ جب ہماری پارٹی کے اندر حالات نہیں سنبھلے تو میں نے ایک انتہائی فیصلہ کیا تھا لیکن مجھے پارٹی اور اپنے ورکرز سے بہت محبت ہے۔پھر میں نے سوچا کہ لوگ کہیں گے مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ دیا، میرا ارادہ تھا کہ میں نیوز لیکس کے حوالے سے بات کروں، ایک شخص کے مالی اور اخلاقی ایشوز ہیں۔

فوج سے قربت کے حوالے سے بات یہ ہے کہ میرا خاندانی پس منظر فوج سے ہے اور اس پر مجھے فخر ہے۔ میرے دادا، میرے والد فوجی تھے، بھائی اور چار میں سے تین بہنوئی ،فوج سے تعلق رکھتے ہیں، فوج سے قربت کے الزام 85 سے لگ رہے ہیں، میں نے ہمیشہ سول اور فوجی تعلقات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی مگر کبھی سویلین اتھارٹی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔