انتخابی اصلاحات کی منظوری

August 24, 2017

قومی اسمبلی نے منگل کو انتخابی اصلاحات کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا جس کے تحت متعدد انتخابی قوانین کو مربوط اور یک جا کرکے انہیں بہتر بنایا گیا ہے۔ ایوان نے بل میں 155ترامیم متفقہ طور پر منظور کیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی 44سے زائد ترامیم کو بل کا حصہ بنایا جبکہ بائیو میٹرک ووٹنگ سمیت اپوزیشن کی 98ترامیم مسترد کردیں۔ تحریک انصاف نے اپنی 4 کلیدی ترامیم مسترد ہونے پرایوان سے واک آئوٹ کردیا۔ انتخابی اصلاحات کے بل کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل مالی اور انتظامی خود مختاری دینے کے علاوہ توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ شفاف انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ کمیشن انتخابات کے دوران کسی غیر قانونی عمل کے خلاف از خود نوٹس بھی لے سکے گا۔ جعلی ووٹ ڈالنے کے مجرم کو 6ماہ قید کی سزا دی جاسکے گی، سیاسی جماعتیں جنرل سیٹوں پر 5فیصد خواتین کو ٹکٹ دینے کی پابندی ہوں گی۔ انتخابی عمل کے دوران مذہب اور فرقہ کانام استعمال کرنے والوں کیلئے 3سال قید کی سزا ہوگی، انتخابی تنازعات جلد نمٹانے کیلئے عرض داشتوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔ قومی اسمبلی کے لئے امیدواروں کے اخراجات کی حد 40لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کیلئے 20لاکھ اور سینیٹ کیلئے 15لاکھ روپے ہوگی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ قانون سازوں نے انتخابی اصلاحات کے بل کی منظوری میں افہام و تفہیم سے کام لیا۔ اس سے الیکشن کمیشن کو مقررہ مدت میں انتخابات کرانے کی تیاری میں مدد ملے گی تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اتنے اہم بل پر بحث کے دوران 342 رکنی اسمبلی کے 50 سے بھی کم ارکان ایوان میں موجود تھے صرف وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 53ہے لیکن ان میں سے صرف دو ایوان میں موجود تھے کسی نے بھی کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی نہیں کی ورنہ بل تاخیر کا شکار ہوجاتا عوام کے ووٹوں سےمنتخب ہونے والوں کو اسمبلیوں کے اجلاسوں میں حاضر بھی ہونا چاہئے۔