عزیز ترین خواہشات کی قربانی

September 01, 2017

حضرت ابراہیم ؑ جن کو اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کے بعد بڑھاپے میں بیٹا عطا کیا تھا جن کا نام اسماعیل ؑ رکھا گیا۔ جب وہ جوان ہوئے تو اللہ کے پیغمبر نے خواب میں دیکھا کہ انہیں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس خواب کا ذکر اپنے جگر پارے سے کیا تو اس نے کہا اباجان آپ وہ کر گزریئے جو آپ نے خواب میں دیکھا ہے۔ آپ مجھے مطیع و فرمانبردار بیٹا پائیں گے۔ باپ نے بیٹے کو زمین پر لٹا دیا اور وہ گلے پر چھری پھیرنے ہی والے تھے کہ ندا آئی کہ اے میرے مخلص بندے! ٹھہر جا، تو نے خواب سچا کر دکھایا ہے اور تیری قربانی قبول ہو گئی ہے۔ روایات کے مطابق حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ دنبے کی قربانی دی گئی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا۔ اس عظیم سنت ِ ابراہیمی ؑ کی پیروی میں ہر سال مسلمان عیدِ قرباں پر جانور ذبح کرتے ہیں۔ گوشت خود بھی کھاتے اور رشتے داروں اور غریبوں کو بھی کھلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینے کا شعار اور جذبہ زندہ رکھتے ہیں۔ قربانی کی اصل رُوح یہی ہے کہ اپنی عزیز ترین متاع اللہ کی خوشنودی پر نچھاور کر دی جائے اور پوری زندگی اس کی تعلیمات کے مطابق بسر کی جائے۔ سنت ِ ابراہیمی ؑ کی پیروی سے مسلم اُمہ میں وہ رُوح کسی حد تک باقی ہے اور حج کے دنوں میں لبیک اللّٰھم لبیک کی صداؤں سے کروڑوں دل آباد اور سرشار رہتے ہیں۔
بلاشبہ سنت ِابراہیمی ؑ کا اوّلین تقاضا اپنی عزیز ترین متاع اور خواہشات کی قربانی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں یہ تقاضا کس حد تک پورا کرتے ہیں۔ عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ تسلیم و رضا کی کیفیت میں کمی آ رہی ہے اور ہم نے اپنی خواہشات کے صنم خانے تعمیر کر لیے ہیں۔ تقویٰ وہ صفت ہے جو قرآنِ مجید مسلمانوں کے اندر دیکھنا چاہتا اور اس کی نشوونما پر خاص توجہ دیتا ہے، مگر اب پرہیزگاری کا دعویٰ بھی ایک زعم کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ دین دار لوگ دوسروں کو اپنے آپ سے کمتر سمجھتے اور ان کی خامیوں اور کمزوریوں کی پکڑ کرتے رہتے ہیں، مگر وہ اپنے دامن کی طرف نہیں دیکھتے جو خود نمائی اور تنگ ظرفی کے زہریلے کانٹوں سے تار تار ہوا جاتا ہے۔ وہ گروہ جو اپنے آپ کو دانائے کل سمجھ بیٹھا ہے، اُس کی لامحدود خواہشات کی ایک دنیا آباد ہے جس میں ’کم عقلوں‘ کے داخلے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ’رازدانِ بحروبر‘ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ اُن کے نظریات کی خدائی میں کسی کو چوں چرا کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ اعلیٰ دماغ لوگ اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں میں بھی ہیں، حکومت کے بلند ترین اداروں میں بھی، سیاسی جماعتوں میں بھی ہیں اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرنے والے نجومیوں میں بھی۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانیت اور وطن کے مفادات کو اوّلین ترجیح دیتے ہیں، مگر عمل اُن کے دعووں سے یکسر مختلف دکھائی دیتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ بلند کیا تھا، لیکن اُن کی حکمت ِ عملی اور اقدامات نے سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہی کو پہنچایا۔ آئین کا حلیہ بگاڑا، قومی ادارے تباہ کیے، اپنے اقتدار کے لیے پاکستان کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا اور فوج کو سیاسی معاملات میں اُلجھا کر لوگوں کی نفرت کا نشانہ بنا دیا ۔ وہ اپنے اعمال پر شرمسار ہونے کے بجائے قوم کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں کہ ان میں عوامی مقبولیت کا زعم پیدا ہو چکا ہے۔ یہی زعم انسان کو متکبر بنا دیتا ہے جو اسے اللہ کی رضا کے سامنے جھکنے سے روکتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا ذکر ہی کیا ، دکھ ان اہلِ صفا کا ہے جن کا معاشرے میں کچھ وقار پایا جاتا ہے۔ اونچے درجے کے سیاست دان جو اقتدار میں آ کر اکیس کروڑ پاکستانیوں کی تقدیر کے مالک بن جانے کے لیے جدوجہد کرتے رہتے ہیں، اُن کے طرزِ عمل نے اخلاق، شائستگی، میانہ روی اور دور اندیشی کی صفات پر گہرے گھاؤ لگائے ہیں اور اُن کی جولانیاں مسلسل قوم کی آرزوؤں کا خون کر رہی ہیں۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے، اُگل دیتا ہے اور بدگمانیوں کا زہر پھیلاتا جاتا ہے۔ انہی بدگمانیوں کے باعث معاشرے سے اتفاقِ رائے کی نعمت غائب ہوتی جا رہی ہے۔ ملکی مردم شماری جو دس برسوں کے بجائے انیس سال بعد سپریم کورٹ کے احکام پر منعقد ہوئی، وہ شدید اختلافات اور اعتراضات کی زد میں ہے، حالانکہ سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر فوج نے اس پورے عمل کی نگرانی کی ہے۔ مردم شماری کے ساتھ 2018ء کے انتخابات کی تقدیر اور اقتصادی منصوبہ بندی کے علاوہ صوبوں کے مالی وسائل کی تقسیم وابستہ ہے۔ تنگ نظری اور مفادات کی رسہ کشی نے پاکستان کو میدانِ کارزار بنا دیا ہے جس میں سیاست دان اپنی اپنی فوجیں اتارتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کو اپنے مفادت پر قربان کرنے کے لیے بہت حوصلہ اور بے پایاں اخلاقی طاقت درکار ہے۔ اس کے علاوہ حقیقت اور صداقت کی تلاش ازبس ضروری ہے۔ آج کل پاک امریکی تعلقات ہمارے ذہنی اُفق پر چھائے ہوئے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں سننے میں آ رہی ہیں۔ دانش مندی اور احتیاط سے کام لینے کے بجائے کچھ عناصر حالات کو ایک ایسی سمت کی طرف دھکیل دینا چاہتے ہیں جو ہمارے قومی مفادات کی قربان گاہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے مال روڈ لاہور پر بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ روس اور چین پاکستان کے ساتھ مل کر امریکہ پر حملہ آور ہونے والے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ چین نے اپنے بیان کے دوسرے پیرے میں پاکستان کو اپنے تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ ان بینرز پر کسی جماعت یا تنظیم کا نام درج نہیں، البتہ یہ اعلان درج ہے کہ ہم امریکہ کے خلاف ریلیاں نکالیں گے اور اس کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کر لیں گے۔ یہ سب نادانی اور ژولیدہ فکری کی باتیں ہیں۔ یہ وقت ہوش و حواس قابو میں رکھنے اور توازن سے کام لینے کا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، مگر کسی بھی مرحلے پر پاکستان نے امریکہ کے اُن مطالبات کا ساتھ نہیں دیا جو اس کے مفادات کے خلاف جاتے تھے۔ امریکہ نے پاکستان سے کوریا اور ویت نام کی جنگوں میں فوجیں بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا جو مسترد کر دیا گیا۔ اِسی طرح اس نے چین کے خلاف امریکی دباؤ کی ذرا پروا نہیں کی اور ایک وقت ایسا آیا جب پاکستان نے امریکہ اور چین کے مابین تعلقات استوار کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
امریکی صدر ٹرمپ کا افغانستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے پالیسی بیان کئی اعتبار سے تکلیف دہ اور بہت زیادہ تشویش ناک ہے۔ اس کے مہلک اثرات زائل کرنے کے لیے رابطے توڑنے کے بجائے انہیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی قربانیوں کا چین اور روس نے کھلے بندوں اعتراف کیا ہے اور ایک دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ستر ہزار شہری اور فوجی جامِ شہادت پی چکے ہیں اور ہمیں 120؍ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ حال ہی میں اعلیٰ امریکی عہدے دار جنوبی اور شمالی وزیرستان کا دورہ کر چکے ہیں جن کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کے بلاامتیاز محفوظ ٹھکانے ختم کر دیئے ہیں۔ یہ حقائق عالمی برادری تک پہنچانے کے علاوہ امریکی رائے عامہ کے سامنے مؤثر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بزرجمہروں کو اپنی اَنا کی قربانی دینا ہو گی۔ امریکی قائم مقام وزیرِ خارجہ میڈم ایلس ویلز جو پاکستان کی حامی ہیں اور بہت اچھی اُردو بولتی ہیں، اُن کے دورے کی منسوخی ایک غیر دانش مندانہ اقدام تھا۔ اس خاتون کی آمد سے تعلقات کی کشیدگی میں کمی آ سکتی تھی۔ مذاکرات کے دروازے وہی بزرجمہر بند کرتے ہیں جو خودکشی پر تُلے بیٹھے ہوں۔ امریکی صدر کے پالیسی بیان سے پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا سنہری موقع مل سکتا ہے، مگر اس کے لیے حکمرانوں، حکومتی عہدے داروں اور دولت مند طبقوں کو بڑے بڑے مشاہروں، مراعات اور کمیشنوں کی قربانی دینا ہو گی اور کمرِ ہمت باندھنا ہو گی۔ امریکہ سے تعلقات بگاڑے بغیر ہم دوستی کی ایک سطح قائم رکھنے کے علاوہ ان کی یونیورسٹیوں سے استفادہ کرتے ہوئے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔