یہ مسئلہ کا حل نہیں

September 22, 2017

کتنی بار کہا جائے، بار بار کہا جا رہا ہے، فوجی عدالتیں مسئلہ کا حتمی حل نہیں ہیں۔ نظام بہتر بنانا ہوگا، سول نظام، سول عدالتیں مستحکم کرنا ہوں گی، اور تحقیقاتی ادارے اور استغاثہ کو بہتر کرنا ہوگا۔ اس طرح ہی ملک درست طریقے سے چل سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے، اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اگر یہ ایک جمہوری ملک ہے تو یہی ایک طریقہ ہے۔ آئین ایک مقدس دستاویز ہے، اس میں بار بار ترمیم نہیں کی جاسکتی، نہیں کی جانی چاہئے۔
دو برس پہلے جب آئین میں ترمیم کرکے فوجی عدالتیں بنائی جا رہی تھیں، اُس وقت تو محترم رضا رباّنی نے اس پر بڑے دکھ کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ آج ایک سیاہ دن ہے۔ اس وقت عرض کیا تھا کہ اگر آپ نے ووٹ پارٹی کی امانت سمجھ کر پارٹی کے فیصلے کے مطابق دیدیا ہے، مگر اس پر آپ کو افسوس ہے، تو مستعفی ہو جائیں۔ اس بار تو پہلے ان کی صدارت میں ایوان ِ بالا نے فوجی عدا لتوں میں توثیق کا بل منظور کیا ہے۔ کسی نے درست کہا سیاست اور محبت میں سب کچھ جائز ، یعنی ممکن، ہے۔ اس بار تو انہوں نے دکھ کا اظہار بھی نہیں کیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ (دہشت گردی کی ایک عدالت نے) بینظیر بھٹو قتل کے مقدمہ میں سات ایسے ملزمان کو بری کردیا جو ’بلیک‘ تھے اس لئے فوجی عدالتیں ضروری ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض ہے کہ پہلے یہ دیکھیں کہ اس مقدمے کی پیروی کیا اس طرح ہوئی جس طرح ہونی چاہئے؟ ذرا اندازہ لگائیں، بی بی کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ آنے میں دس برس لگ گئے۔ اس کی بھی تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کو تاہی کس طرف سے ہوئی؟ اس دوران پانچ سال تو پیپلز پارٹی کی حکومت رہی، وہ بھی مقدمہ ٹھیک سے نہیں چلا سکی۔ جب عدالت کا فیصلہ آیا تو پارٹی کو بھی تشویش ہوئی اور اب وہ اپیل میں گئی ہے۔ اس مقدمہ میں سزا صرف دو پولیس اہلکاروں کو ہوئی، وہ بھی لاپروائی برتنے پر۔ بی بی کے قتل کا معاملہ تو حل نہیں ہوا۔ اس قتل کے اصل محرکات اور مجرموں کو اب بھی سزا نہیں ہوئی۔ ایک نامزد ملزم تو ملک سے باہر ہے۔ فوجی عدالت بن جائے تو کیا وہ ملزم واپس لایا جا سکے گا؟ کم ہی لوگ اتفاق کر سکتے ہیں۔ وجوہات سب کے سامنے ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے، معذرت کے ساتھ، کہ قانون سب کے لئے برابر نہیں ہے، آئین میں چاہے کچھ بھی لکھا ہو۔
اس طرف کئی بار توجہ دلائی گئی ہے، اور با اختیار اور باخبر لوگ بار بار اس کی نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ ہمارے یہاںمعاملات تحقیقات کے مرحلے سے ہی خراب ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر دو مقدمات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، ہمدرد کے حکیم سعید اور تکبیر کے محمد صلاح الدین کے قتل کا۔ صلاح ا لدین مرحوم کے قتل میں استغاثہ نے ایسے گواہوں کو شامل کرلیا جو گواہ تھے ہی نہیں۔ ان کے بیانات گھڑے گئے، جعلی دستخط کئے گئے۔ ظاہر ہے انہوں نے ان گھڑے ہوئے بیانات کی عدالت میں تردید کردی۔ ان سے منسوب بیان میں انہیں تکبیر کا ملازم کہا گیا تھا، جبکہ ان میں سے کسی نے بھی، کبھی بھی، اس جریدے میں کام نہیں کیا۔ اس طرح حکیم سعید کے قتل میں ایک ایسے شخص کو اصل ملزم قرار دیا گیا جس کے پاس قتل کے واقعہ کے وقت ایک دوسری جگہ موجود ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجود تھے۔ اسے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سزا تو سنا دی، مگر ہائی کورٹ نے پہلی ہی سماعت میں اسے اور تمام دوسرے ملزمان کو بری کردیا۔ اس طرح کی تحقیقات کی بنیاد پر عدالت کس طرح کسی ملزم کو سزا دے سکتی ہے؟ انصاف کے اپنے بھی کچھ تقاضے ہیں۔ اس میں قصور کس کاہے؟ عدالت کا یا تحقیقاتی اداروں اور استغاثہ کا؟
اس طرح کے واقعات کو بنیاد بنا کر آئین میں ترمیم کی جائے اور فوجی عدالتیں قائم کرنے کا جواز تلاش کیا جائے، یہ درست رویہ نہیں ہے۔ ترمیم تو ہوگئی، مگر یہ آئین کی روح کے خلاف ہے۔ اسی آئین میں پہلے لکھا گیا تھا کہ عدالتوں کو پانچ برس میں انتظامیہ سے الگ کردیا جائے گا۔ بدقسمتی کہ آئین کو بنے پانچ برس نہیں ہوئے تھے کہ ملک پر ایک فوجی، جنرل ضیا ء الحق نے قبضہ کرلیا ، انہوں نے ایک مارشل لاحکم کے ذریعہ اس کی مدت پانچ سے بڑھا کر چودہ سال کردی۔ یوں اس آئینی کام میں مزید نو سال لگے۔ اور مزید بدقسمتی کہ آئین کی اسی شق میں، ایک جمہوری دور میں، ترمیم کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ اُس وقت کہا گیا تھا کہ یہ عدالتیں دو سال کے لئے بنائی جا رہی ہیں، اس مدت کے بعد یہ خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ اس مدت میں اور اس سے پہلے بنائی گئی انسداد دہشت گردی کی عدالتیں فی الحقیقت دہشت گردی ختم نہیں کرسکیں۔ اس کی وجوہات بھی سب کے سامنے ہیں۔ دہشت گردی تو بڑی بات ہے، متعلقہ ادارے تو امن و امان کی صورت حال بھی بہتر نہیں کرسکے۔ کیونکہ اصل مسئلہ عدالتیں نہیں، انتظامیہ ہے اور اس کے بے قابو بازو، پولیس وغیرہ اگر آپ واضح طور پر نشاندہی چاہتے ہیں تو۔
فوجی عدالتیں ، نواز شریف کے پہلے ادوار میں بھی قائم کی گئی تھیں۔ انہوں نے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بھی بنائی تھیں، اور ایسی ہی ایک عدالت سے انہیں جنرل پرویز مشرف نے سزا دلوائی، جو بہت بعد میںسپریم کورٹ نے ختم کی۔ فوجی عدالتوں کے ریکارڈ دیکھ کر مزید اقدامات کی ضرورت تھی۔ یہ دیکھنا چاہئے تھا کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے یہ عدالتیں کیوںختم کی تھیں؟ یہ بھی دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا ماضی میں کسی بے گناہ کو ان عدالتوں سے سزا تو نہیں ہوئی؟ بدقسمتی سے ایساہی ہوا۔ ایک شخص کو موت کی سزا سنائی گئی۔ فوجی عدالت کے خلاف مقدمہ اعلیٰ عدالت میں زیرِسماعت تھا، مگر جج نے حکم ِ امتناعی جاری کرنے سے انکار کردیا اور ملزم کی اس تشویش پر کہ مقدمے کا فیصلہ آنے تک اسے پھانسی ہوجائے گی، یہ کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، ہم بیٹھے ہیں۔ اس غریب کو پھانسی ہوگئی، اور بعد میں اعلیٰ عدالت نے فوجی عدالتیں ختم کردیں۔
ایسا کیوں ہوا،اس کی ایک معقول وجہ ہے۔ اس پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان عدالتوں کے سربراہوں کی قانون میں تربیت نہیں ہوتی، ان کا کام دوسرا اور قابل احترام ہے۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس سے مقدس کام اور کیا ہوگا؟ انہیں اس طرح کے کاموں میں الجھانا نہیں چاہئے جن سے ان کی نیک نامی پرحرف آئے۔ پہلے دور کی عدالت کے ایک مقدمے میں ملزم پر تین الزام تھے، دہشت گردی، غیر قانونی اسلحہ رکھنا اور قتل۔ فوجی عدالت نے پہلے دو الزامات میں اسے بری کردیا، جبکہ تیسرے الزام ، یعنی قتل، میں اسے موت کی سزا سنادی۔ یہ کوئی تفصیلی فیصلہ نہیں تھا۔ ایک کاغذ پر ایک خانے میں الزامات لکھے ہوئے تھے، اور دوسرے خانوں میں فوجی عدالت کا فیصلہ، ایک ایک لفظ میں۔ یہ انصاف کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ کسی بھی سزا میں، کسی بھی فیصلہ میں تفصیل درکار ہوتی ہے، یہ بتانا ہوتا ہے کہ عدالت اس فیصلے تک کیسے پہنچی۔ اس فیصلے میں تو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ جب اس ملزم کے پاس اسلحہ نہیں تھا، اس نے دہشت گردی نہیں کی تو پہلی بات یہ کہ قتل کس طرح کیا اور اگر کسی طرح قتل کردیا تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے۔
اس لئے جب آپ مقدس دستاویز، آئین ، میں ترمیم کررہے تھے تو عرض کیا تھا کہ اگر دو سال میں، جیسا آپ نے کہا، گند ختم نہیں کرسکے تو کون کس کو جوابدہ ہوگا؟ اور یہ فوجی عدالتیں کیا واقعی آپ دو سال بعد ختم کردیں گے؟ ایک سوال بھی تھا، کیا آپ کر سکیں گے؟ یہ عدالتیں اس سال جنوری میں ختم ہوگئیں، مگر اصل گند تو ختم نہیں ہوا۔ دہشت گردی پر تو آپ مکمل قابو نہیں پا سکے۔ اس لئے ان عدالتوں کے قیام کے لئے ایک بار پھر آئین میں ترمیم کرنی پڑی۔ یہ اچھا رویہ نہیں ہے۔ اور جمہوریت کے خلاف ہے، جس کی جان ویسے ہی نکلی ہوئی ہے، اس پر رحم کریں۔