مجوزہ تین امریکی دورے ،مقاصد اور پاکستان

October 11, 2017

وزیر خارجہ خواجہ آصف کے دو روزہ دورہ واشنگٹن کا تعلق ستمبر میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ اقوام متحدہ سے یوں جڑا ہوا ہے کہ نہ صرف وزیرخارجہ اپنے وزیراعظم کی ٹیم کا حصہ تھے بلکہ امریکی نائب صدر مائیک پنس اور وزیراعظم عباسی کے درمیان اقوام متحدہ کی سائیڈ لائن پر ’’ون پلس فور ‘‘ (1+4) دو طرفہ ملاقات جس پاک، امریکہ رابطے کا آغاز ہوا تھا۔ دورہ واشنگٹن میں امریکی وزیرخارجہ ٹلرسن اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنر(ر) میکما سٹر سے ملاقاتیں بھی اسی تسلسل کا حصہ تھیں پھر وزیرخارجہ نے ایشیا سوسائٹی نیویارک سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں اپنا جو موقف بیان کیا تھا پاکستانی میڈیا کی سخت تنقید اور امریکی تعجب وناراضگی کی پروا کئے بغیر دورہ واشنگٹن میں بھی وہی موقف بھرپور طریقہ سے پیش کرتے رہے۔ ماضی کے امریکی رویوں سے ناراض محب وطن پاکستانی وزیرخارجہ کے عوامی بیانات اور امریکیوں سے شکایات و جوابی الزامات پر خوش ہوں گے لیکن عالمی تعلقات اور ڈپلو میسی کے تقاضے کچھ اور ہی ہیں۔ امریکہ کے سنجیدہ اور عوامی حلقے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی شمالی کوریا کو دھمکیوں اور سخت لہجوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ سینیٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین ری پبلکن سنیٹر کروکر کا تازہ بیان ہے کہ صدر ٹرمپ کا وہائٹ ہائوس تو ’’بالغوں کا ڈے کیئر سینٹر‘‘ بن چکا ہے۔ صدر ٹرمپ تو دنیا کو تیسری جنگ عظیم میں دھکیلنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان کی رائے میں ٹرمپ کا یہ احمقانہ انداز اور دھمکیاں امریکی قوم کو تیسری عالمی جنگ کی سمت لے جائیں گی۔ ‘‘ اسی تناظر میں اہل پاکستان کو بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ کے یہ غیر ڈپلومیٹک بیانات پاکستان کیلئے عملاً کتنے فائدہ مند ہو سکتے ہیں ؟ کیا ہم امریکہ کو اشتعال دلا کر اپنے جذبات کی تسکین کے علاوہ کوئی سفارتی سیاسی، معاشی یا عملی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا ہم امریکہ، بھارت ، تعاون اور اتحاد کا کوئی عسکری مقابلہ کرنے کے قابل ہیں؟قومی جذبات بالکل ضروری لیکن قومی بقا و سلامتی، سب پر مقدم ہے۔ صدر ٹرمپ کا 21اگست کا بیان اہل پاکستان کیلئے دھمکی بلکہ توہین آمیز تھا مگر اس کے جواب میں ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا وہ عوامی اور الزامی مناظرہ ہمارے مقاصد پورے کرتا ہے؟ میری رائے میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کمزور اور مسائل کی کمی کی شکار جرمن قوم نے اپنی توہین اور شکست کا اپنی معاشی ترقی اور سیاسی حیثیت کو اجاگر کرکے یورپ کی سب سے مضبوط اور بڑی معیشت بن کر جو بدلہ لیا ہے وہ قابل تقلید اور ستائش ہے۔ ہمارے قائدین بڑھکیں مارنے اور داخلی انتشار پیدا کرنے میں مہارت و تجربہ رکھتے ہیں۔
بہرحال امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) میٹس کے مطابق ’’آخری موقع‘‘ کے طور پر وہ پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کرنے کیلئے پاکستان آنے والے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ بھی آئیں گے اور اس سے قبل امریکی وفد بھی پاکستان جائے گا۔ کہنے کو تو یہ پاک۔ امریکہ ڈائیلاگ ہو گا لیکن مقصد ستمبر 2011کی طرح پاکستان کو زبردست امریکی دبائو میں رکھ کر ،ایک بار پھر پاکستان سے امریکی شرائط کے مطابق جنوبی ایشیا میں نئی امریکی اسٹرٹیجی کا حصہ بن کر تعاون و قربانی پر مجبور کرنا ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ، وزیردفاع اور نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان کے تین علیحدہ علیحدہ اور یکے بعد دیگر دوروں کو پاکستان کی فتح یا امریکی مجبوری و بے بسی سمجھنا نادانی ہوگی بلکہ اپنے آپریشن اور حکمت عملی کی تیاریاں مکمل کرنے کے لئے درکار وقت کے دوران ڈپلو میٹک طریقوں سے مراعات حاصل کرنے اور دنیا کو امن کیلئے کوشش کا ظاہری اور رسمی ناٹک، عراق، شام اور لیبیا کی جنگوں سے قبل بھی دیکھنے کو ملا ہے ۔
پاک امریکہ تعلقات اور جنوبی ایشیا میں بگڑتی صورتحال اور بھارتی عزائم پر تشویش بالکل بجا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مشیر جر نیلوں کی ٹیم کے ارادوں پر بھی فکر کرنا ضروری ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کو اس صورتحال سے ’’ڈیل‘‘ کرنے کی تیاری بھی کرنا چاہئے۔ مثبت بات یہ ہے کہ اب امریکی عوام اور قیادت کو بھی یہ احساس ہو چلا ہے کہ صدر ٹرمپ کا متحرک سیمابی مزاج روزانہ کے ٹوئیٹس اور دنیا کو دھمکیاں دینے کے بیانات امریکہ کیلئے عالمی اور داخلی سطح پر کیا صورتحال پیدا کر رہے ہیں؟ ٹرمپ کے منظور نظر اور نائب صدارت سمیت متعدد عہدوں کیلئے ٹرمپ کی پیشکش سے معذرت کرنے والے ری پبلکن سنیٹر باب کرو کر جیسے قائدین صدر ٹرمپ کو امریکی قوم کیلئے خطرہ، تیسری عالمی جنگ کی سمت جانے کا ذمہ دار اور ’’مرکری مزاج‘‘ کا صدر اعلانیہ قرار دے رہے ہیں۔خود امریکی قوم اور امریکی نظام میں ٹرمپ کے ٹویٹ، اعلانات ،اقدامات کے خلاف تنقید و مزاحمت بڑھ رہی ہے جبکہ 2018کے مڈٹرم امریکی انتخابات میں بھی ٹرمپ کے لئے حوصلہ شکنی اور ڈیمو کریٹس کیلئے حوصلہ افزا نتائج و صورتحال کے اندازے لگائے جا رہے ہیں لہٰذا پاکستان کے قائدین موجودہ ناموافق وقت کو گزارنے اور اپنی غیرمستحکم اور منتشر صورتحال کو سنبھالنے کیلئے ڈائیلاگ اور اقدامات کریں۔ (1) پاکستان کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی موجودہ سوچ اور حکمت عملی کو تبدیل کرنا پاکستانی وزیروں اور مشیروں کے بس کی بات ہی نہیں۔وزیر خارجہ کا دورہ واشنگٹن اور امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سے مقررہ وقت سے 9گھنٹے قبل ملاقات اور ذرائع سے ملنے والی تفصیل اسکی تصدیق کرتی، امریکی وزیر خارجہ پاک، امریکہ مذاکرات کے حق میں یوں ہیں کہ پاکستان پر دبائو کی شدت سے اپنی بات منوائی جا سکے۔ اس لحاظ سے وزیر خارجہ کا دورہ واشنگٹن مثبت نہیں، ناموافق صورتحال کی ترجمانی کر رہا ہے ۔
اس ماہ ایک امریکی وفد پھر امریکی وزیر خارجہ اور پھر امریکی وزیر دفاع کے اسلام آباد آنے کو بھی پاکستانی حکمرانوں یا ڈپلو میسی کی کامیابی گرداننےسے قبل حقائق اور امریکی وزیر دفاع کے امریکی سینیٹ کے سامنے اس بیان کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ آخری مرتبہ پاکستان کو صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا اسٹرٹیجی میں شراکت یا انکار بارے بات کا موقع دے رہے ہیں۔ یعنی امریکی شرائط کے ساتھ پاکستان نئی اسٹرٹیجی کا حصہ بنے۔کمزور اور عدم استحکام کی شکار عباسی حکومت اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی صلاحیت سے فی الوقت محروم بھی ہے اور اس کی توجہ داخلی سیاسی بحرانوں سے ڈیل کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ لہٰذا وقت اور صورتحال بدلنے تک اگر چند اقدامات پر غور اور عمل کیا جائے تو ایک موافق بلکہ بہتر صورتحال کی توقع کی جا سکتی ہے۔
(1) حکومت، فوج، عمران خان اور اپوزیشن پاکستان کی معاشی صورتحال کے بارے میں ورلڈ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کو پڑھ کر اپنے اپنے رول اور ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے منفی انداز سیاست کا اعتراف کر کے ملکی سلامتی کو لاحق بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے ’’انا‘‘ کو چھوڑکر تعمیری رول ادا کریں۔
(2) فوج پر داخلی سیاست و حالات کا دبائو کم کر کے اسے بیرونی خطرات پر یکسوئی سے توجہ کا موقع فراہم کرنا اقتدار کی جنگ اور انتخابی جیت کا مزہ لینے کیلئے پاکستان کی سلامتی لازمی ضرورت ہے۔ خدانخواستہ پاکستان کو کچھ ہوا تو عمران خان کس ملک کے وزیر اعظم بنیں گے یا مسلم لیگ (ن) پی پی پی اور دیگر کہاں راج کریں گے۔ (3) اپنے ہی پاکستانی عوام میڈیا سے حقائق چھپانے اور دور رہنے کی روش وزیراعظم وزراء اور سرکاری اہلکار ترک فرما دیں۔ اپنے بیرونی دوروں اور پاکستان میں موجودگی کے دوران پاکستانی عوام اور میڈیا کو ’’پرابلم کا حصہ‘‘ نہیں بلکہ ’’پرابلم کے حل کا حصہ‘‘ سمجھ کر وزارتی نخوت سے باہر آئیں۔ 1971 میں سانحہ بنگلہ دیش کے حالات و واقعات کا ’’مطالعہ برائے عبرت اور سبق‘‘ فرمائیں۔ ایک بار پھر بیرونی قوتوں کے ہاتھوں پاکستان کو ویسی ہی صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے۔
(4) پاک۔ امریکہ تعلقات کے سلسلے میں پاکستان کے پاس ایک کلیدی آپشن امریکہ میں آباد پاکستانی۔ امریکی کمیونٹی ہے۔ جن امریکی سینیٹروں، کانگریس مینوں اور پالیسی سازوں سے چند منٹ کی ملاقات کیلئے ہمارے وزیراعظم اور وزراء کرام مہینوں، ہفتوں کا انتظار کر کے بھی اپنی درخواستوں کی نامنظوری پاتے ہیں۔ اس پاکستانی امریکن کمیونٹی کے بہت سے خاموش اور گمنام پاکستانی ووٹر اور شہری کے طور پر وہ رول ادا کر سکتے ہیں جو پاکستان کے سرکاری وفود، وزراء اور حکمران طبقہ کے بس کی بات ہی نہیں۔ پاکستانی سفارت خانوں اور قونصلیٹ کی تیار کردہ وی آئی پی لسٹ سے باہر نکلنا ہو گا۔ بےنظیر، آصف زرداری، پرویز مشرف، میاں نواز شریف اور امریکہ میں متعین پاکستانی سفارت کار پاکستانی کمیونٹی کی اس قوت سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ متعدد بار اقتدار سے محرومی اور اقتدار کے دور میں بھی امریکی نظام میں اپنی رسائی کیلئے پاکستانی کمیونٹی کی اس طاقتور سیڑھی کو استعمال کر چکے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی اگر امریکہ میں طاقتور ’’اینٹی وار‘‘ لابی کے تعاون سےجنوبی ایشیا میں ممکنہ جنگ کے خلاف مظاہروں اور مہم کا پروگرام مرتب کرے تو بھارت، امریکہ تعاون اور خطے میں جنگ کی منصوبہ بندی کیلئے سیاسی رکاوٹ پیدا کی جا سکتی ہے۔ تفصیل پھر سہی لیکن پاکستانی حکومتیں اور حکمران امریکہ اور بیرون ملک پاکستانیوں کو محض زبانی خطابات اور تعریفوں کی بجائے عملی طور پر عزت ووقار اور تحفظ و مراعات فراہم کرنا سیکھیں۔