نوازشریف کی منشاءکےبغیرپارٹی میں تبدیلی نہیں آئیگی،سینیٹرعبدالقیوم

October 24, 2017

کراچی(ٹی وی رپورٹ)ن لیگ کے رہنما ریاض پیرزادہ نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو ٹیک اوور کے مشورے کا مقصد یہ نہیں کہ بریگیڈیئر شہباز شریف ٹیک اوور کرلے، سیاسی قیادت یا وزرائے اعظم پر کیسز نئی بات نہیں ہے، لیڈرز کو اپنی دیانت اور دانائی سے ان چیزوں کو ختم کرناچاہئے، اس میں ناراض ہونے یا اداروں سے لڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے،آصف زرداری جیل میں گیا تو وہاں رفاہی کام کیے، لیڈر جہاں بھی جاتا ہے وہاں رونق بنادیتا ہے، اگر ایسے بڑے لیڈرز کہیں جائیں تو ان اداروں کو فائدہ ہوجاتا ہے۔

وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ کیلئے نمائندہ جیو نیوز سے خصوصی گفتگوکررہے تھے۔ پروگرام میں اسٹوڈیو میں ن لیگ کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم، پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن،اے این پی کے رہنما شاہی سید اور بیوروچیف جیو نیوز لاہور رئیس انصاری موجود تھے جن سے مختلف معاملات پر سیرحاصل گفتگو کی گئی جبکہ وزیر تجارت پرویز ملک سے مختصر گفتگو بھی پروگرام میں شامل تھی، اس کے علاوہ بیرسٹر فروغ نسیم سے گفتگو بھی دکھائی گئی۔ پرویز ملک نے کہا کہ ریاض پیرزادہ نے جو باتیں کیں وہ پارٹی کے اندر کرنے والی ہیں،کسی کو تقسیم کرنا یا اختلافات بڑھانا مناسب نہیں ہوتا، ریاض پیرزادہ شریف آدمی ہیں،پتا نہیں کیوں انہوں نے ایسا بیان دیا۔بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر کسی کی نااہلی آئین کے تحت ہوئی ہے تو پھرکوئی قانون منظور کرنے سے فرق نہیں پڑے گابلکہ آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی،ایسا آدمی پارٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا جسے عدالت نے کسی آئینی شق کے تحت نااہل قرار دیاہو۔

سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ نوازشریف کی منشاء کے بغیر پارٹی میں کوئی تبدیلی نہیںآ ئے گی،نواز شریف کیسز ختم ہونے تک پارٹی شہباز شریف کو دیدیتے ہیں اور پارٹی آرگنائز ہوکر کھڑی ہوگئی تو عمران خان کا صفایا ہوجائے گا۔شیری رحمن نے کہا کہ ریاض پیرزادہ ہمیشہ وہی بات کرتے ہیں جو انہیں صحیح لگتی ہے،ن لیگ میں قیادت کا سنگین بحران چل رہا ہے،سندھ حکومت شہباز قلندر کے مزار پر کسی کوآنے سے روکنے کاتصور بھی نہیں کرسکتی ہے۔شاہی سید نے کہا کہ عمران خان کو جو بات کرنی ہے پارلیمنٹ میں آکر کریں، پارٹی کی مرضی ہے وہ کس کوپارٹی صدر بنائے،عدالت کو صرف سرکاری آفس واپس لینے سے متعلق فیصلہ کرنا چاہئے۔

ریاض پیرزادہ نے سوال آپ نے شہباز شریف کو ٹیک اوور کرنے کیلئے کہا اس کی کیا وجہ ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی قیادت یا وزرائے اعظم پر کیسز نئی بات نہیں ہے، شیخ مجیب الرحمن،ذوالفقار علی بھٹو،بینظیر بھٹواور یوسف رضا گیلانی پر وزیراعظم ہوتے ہوئے کیس بنے اور انہوں نے عدالتوں میں ان کا سامنا کیا،لیڈرز پر ایسا وقت آتا ہے یہ کوئی انہونی بات نہیں، لیڈرز کو اپنی دیانت اور دانائی سے ان چیزوں کو ختم کرناچاہئے،اگر غلط الزام ہے تو غلط ہے، میرے بھائی پر قتل کا پرچہ ہوا،اس نے قتل نہیں کیا تھا لیکن بیس دن حوالات میں بیٹھا رہا، جب ہم خود پبلک آفس کا انتخاب کرتے ہیں جس میں بادشاہ اپنے باپ کو گرفتار کرتے، بھائیوں کو قتل کرتے ہیں، مارشل لاء لگائے جاتے ہیں، وزیراعظم مارے جاتے ہیں،عدالتوں میں سزائیں ہوتی ہیں، یہ سارا اس کھیل کا حصہ ہے اس میں ناراض ہونے یا اداروں سے لڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے، آصف زرداری تو ملک میں بہترین مثال ہیں، اگر آصف زرداری جیل میں گیا تو وہاں رفاہی کام کیے، لیڈر جہاں بھی جاتا ہے وہاں رونق بنادیتا ہے، اگر ایسے بڑے لیڈرز کہیں جائیں تو ان اداروں کو فائدہ ہوجاتا ہے، میرے شہباز شریف کو ٹیک اوورکے مشورے کا مقصد یہ نہیں کہ بریگیڈیئر شہباز شریف ٹیک اوور کرلے، میں اگر کسی ایم این اے یا شاہد خاقان عباسی کو ٹیک اوور کرنے کا کہتا تو پھر تنقید بنتی تھی، میں نے تو شہباز شریف کو ٹیک اوور کرنے کیلئے کہا ہے جو نواز شریف کا تابعدار بھائی نظر آتا ہے ،مجھے نہیں پتا ان کے گھر کا کیا معاملہ ہے، جس طرح جونیئر لوگوں نے ہمارے خلاف بولنا شروع کردیا تو سب کو سمجھ آگیا کہ مرچیں کیوں لگنی لگ گئی ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت نے نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62/1F کے تحت نااہل قرار دیا، 2002ء کے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے آرٹیکل پانچ کے تحت واضح لکھا ہوا تھا کہ اگر کوئی آدمی نااہل ہے تو وہ پارٹی عہدیدار نہیں ہوسکتا، اس شق کو سیکشن 203سے ختم کیا گیا جو آئین کے نیچے ایک قانون ہے جو آئین میں ترمیم نہیں کرسکتا ، اگر کسی کی نااہلی آئین کے تحت ہوئی ہے تو پھرکوئی قانون منظور کرنے سے فرق نہیں پڑے گا بلکہ آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی، ایسا آدمی پارٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا جسے عدالت نے کسی آئینی شق کے تحت نااہل قرار دیاہو۔شرجیل میمن کی گرفتاری پر بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ شرجیل میمن کو جس طرح گرفتار کیا وہ عدم مساوات کی مثال ہے، سندھ میں کسی کیخلاف نیب کا نوٹس بھی آجائے تو اسے ضمانت قبل از گرفتاری کروانا پڑی ہے ورنہ وہ گرفتار ہوجاتا ہے لیکن اسی قانون کا اطلاق پنجاب میں یا شریف خاندان پر نہیں ہورہا تو افسوس کی بات ہے۔