اللہ کو کون کون قرض حسنہ دے گا

July 30, 2012

سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ مختصر فیصلے میں یہ تسلیم کیا کہ بلوچستان میں آئینی بریک ڈاؤن ہو چکا، صوبے میں آئین کا نفاذ ہے اور نہ عدالتی حکم پر عمل ہوتا ہے۔ بلاشبہ حکومت، فوج، ایف سی، ایجنسیاں اور بیورو کریسی سب ناکام ہو چکے، صوبائی اسمبلی کے تقریباً تمام ارکان کابینہ میں شامل ہیں مگر عوامی مسائل کی طرف کسی کو توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ عوام کے نام پر جاری کیا جانے والا اربوں روپے کا بجٹ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ غریب کو کچھ نہیں ملتا مگر بلوچستان کے حکمرانوں ، وڈیروں، نوابوں، سیاستدانوں اور بیورو کریسی کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ وفاقی حکومت دوسرے قومی مسائل کی طرح بلوچستان کے مسئلہ پر بھی مکمل بے فکر اور لاتعلق ہے جبکہ پارلیمنٹ بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ہر طرف مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور کسی طرف سے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ان انتہائی دگرگوں حالات میں دو دن قبل نماز تراویح کے دوران میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس کی آنکھوں کی چمک، اس کے عزم اور ارادوں نے مجھے احساس دلایا کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ تمام کے تمام ذمہ دار چاہے سو جائیں مگر انشاأللہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کو قائم و دائم رہنا ہے۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس، سر پر ٹوپی پہنے، ماتھے پر گہرا محراب اور چہرے پر سنّتِ رسولﷺ سجائے حافظ عبدالرؤف کا تعلق جناب حافظ سعید صاحب کی فلاح انسانیت فاونڈیشن (جماعت الدّعوة) سے ہے اور وہ بلوچستان میں رفاہی کاموں کا ذمّہ دار ہے۔ بلوچستان کے حالات پر ماضی میں میری کئی لوگوں سے بات ہوئی مگر حافظ عبدالرؤف وہ شخص ہے جس نے بلوچستان کے چپے چپے کا دورہ کیا اور لوگوں کے مسائل سے آگاہی حاصل کی۔ اس تحقیق کی روشنی میں فلاح انسانیت فاونڈیشن نے ایک ایسا منصوبہ تیار کیا ہے، جس کا مقصد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے غربت میں اٹے محروم طبقہ کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ فلاحِ انسانیت فاونڈیشن نے اس سلسلے میں کیا کیا اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، اس کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا مگر حافظ عبدالرؤف کی زبانی ذرا بلوچستان کے عوام کے حالات کو سن لیجیے۔ محرومی اور غربت کی انتہا اگر دیکھنی ہے تو بلوچستان جائیے۔ پینے کا صاف پانی، بنیادی صحت اور تعلیم کی سہولت سے صوبے کے ایک بڑے علاقے میں رہنے والوں کا کوئی تعلق نہیں۔ جن کو یہ بنیادی سہولتیں میسر ہیں تو سمجھیں وہ بلوچستان کے VIPہیں۔ پوری پوری تحصیل، ضلعوں اور سینکڑوں میل کے فاصلہ تک ایک ڈاکٹر بھی موجود نہیں۔ میڈیکل اسپیشلسٹ نام کی چیز سے ایسے علاقوں کے لوگ واقف ہی نہیں۔ الٹرا ساؤنڈ کیا ہوتا ہے۔ سرجری کسے کہتے ہیں، یہ بلوچستان کے ان لوگوں کو نہیں معلوم۔ دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاقہ تربت میں آج بھی نسل در نسل غلام چل رہے ہیں جو خاندانی طور پر غلام پیدا ہوتے ہیں اور غلام ہی مرتے ہیں۔ ہمارے آئین میں خواہ کچھ بھی لکھا ہو مگرکئی علاقوں میں بغیر اجرت کے دن میں ایک وقت کے کھانے کے بدلے بیگار لی جاتی ہے اور کوئی انصاف کرنے والا نہیں۔ پشین کے علاقہ سراناں میں رہنے والوں کو پینے کا پانی لانے کے لئے 25کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ 700فٹ گہرائی میں میٹھا پانی دستیاب ہے مگر پورا گاؤں یہ سکت نہیں رکھتا کہ پندرہ لاکھ خرچ کر سکے۔ وہ بے چارے تو 15 ہزار روپے جمع نہیں کر سکتے۔ ایک بڑی تعداد نے زندگی بھر 500 اور 1000 روپے کا نوٹ تک نہیں دیکھا۔ 4سے 5 ہزار میں ایک انسان کو قتل کر دیا جاتا ہے کیونکہ قاتل کہتا ہے کہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو اس کے اپنے بچے بھوکے مر جائیں گے۔ سردار اور نواب لوگوں کی قسمتوں کے مالک ہیں، جس کو چاہیں کسی سے بیاہ دیں، جس کو چاہیں قید میں ڈال دیں۔ قلات کے علاقہ میں نسبتاً ایک باشعور شخص کو کہاگیا کہ اپنے جوان بیٹے کو کسی کام پر لگا دو تو جواب ملا کہ اگر جوان بیٹا نہ ہو گا تو پانی کہاں سے آئے گا۔ جوان بیٹا اور گدھا خاندان کو پانی فراہم کرنے کے لئے صبح جاتے ہیں اور شام کو واپس لوٹتے ہیں۔ باپ کہتا ہے کہ اگر بیٹا بیمار پڑ جائے تو حالات خراب ہو جاتے ہیں۔ اس کو کسی اور کام پر لگانا یا کہیں اور بھیجنے کا مطلب پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی ہے۔ حافظ عبدالرؤف کا کہنا ہے حال ہی میں اُن کو زیارت جانا پڑاتو دیکھا لوڈ شیڈنگ ہے۔ پوچھا کتنے گھنٹے سے بجلی گئی ہوئی ہے۔ جواب ملا گزشتہ آٹھ دن سے۔ حافظ صاحب کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بڑی تعداد میں لوگوں کو واقعتاً جانوروں سے بھی بدتر زندگی کا سامنا ہے۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ غربت اور محرومی ہے۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ وہاں کے لوگ ہم سے ناراض ضرور ہیں، وہ ہم سے نفرت نہیں کرتے اور یہ کہ ناراض تو اپنوں سے ہی ہوا جاتا ہے۔
مگر میں سوچتا رہا کہ ہم کیسے اپنے ہیں کہ اُن کا درد محسوس کرنا تو درکناراُن کے حالات سے ہی واقف نہیں۔
اگر حکومت، حکمران، وڈیرے، نواب اور دوسرے ذمہ دار کچھ نہیں کر رہے تو ہم بھی تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ صرف پریشانی اور مایوسی سے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ حافظ عبدالرؤف صاحب سے بات کر کے مجھے اس لیے خوشی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو بلوچستان کے لوگوں کے لیے عملی طور پر کچھ کر رہا ہے۔ حافظ صاحب کے مطابق فلاح انسانیت فاونڈیشن نے بلوچستان کے عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے ایک جامع پروگرام مرتب کیا ہے جس پر کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس پروگرام کے مطابق اگلے تین سالوں میں حافظ سعید صاحب کی تنطیم بلوچستان بھر میں 50 کروڑ کی لاگت سے 100سکول، 16 کروڑ کی لاگت سے 1000 کنویں، 7.5 کروڑ کی لاگت سے 50 میڈیکل سینٹرز، 6.3 کروڑ روپے کی لاگت سے 90ایبمولینس سروس شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ 10 ہزار خاندانوں کو ماہانہ 2 ہزار روپے فی کس اور 10 ہزار خاندان کو بکری برائے خودکفالت (فی بکری 10,000 روپے) بھی فراہم کی جائیں گی۔ اس تمام کام کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے اور عمل درآمد بھی جاری ہے۔ 180کنویں اور ہینڈ پمپ پہلے ہی جماعت الدّعوة بلوچستان میں لگوا چکی۔ کوئٹہ اور جعفر آباد میں ایمبولینس سروس کا آغاز ہو چکا ہے۔ کچھ علاقوں میں اسکولوں اور ہسپتالوں کا کام شروع ہو چکا ہے۔ 7جولائی تا 12جولائی بلوچستان بھر میں 46 فری میڈیکل کیمپس لگائے گئے، جن میں 40,882 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ 12میڈیکل ٹیموں میں شامل 74 ڈاکٹر و پیرامیڈیکل اسٹاف نے یہ خدمات انجام دیں۔
پاکستان کے لوگ بلوچستان کے لئے تڑپ رکھتے ہیں مگر عملاً کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ حافظ صاحب سے بات کر کے مجھے ایسا لگا کہ پاکستان کے مخیّر حضرات اور صاحب استطاعت لوگوں اور بلوچستان کے لیے درد دل رکھنے والوں کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ ایک لاکھ 65ہزار روپے دے کر بلوچستان کے کسی گاؤں میں ایک کنواں کھدوا دیں۔ 50لاکھ روپے کا ایک اسکول تعمیر کروا دیں۔ 15لاکھ روپے کا ایک میڈیکل سینٹر بنوا دیں۔ 2 ہزار روپے ایک خاندان کے ماہانہ خرچہ کی ذمہ داری اٹھا لیں۔ 10ہزار روپے کی بکری ایک خاندان کو دلوا دیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو جو توفیق دے، اسے اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنا چاہئے۔ کوئی اگر خود بلوچستان جانا چاہے، حافظ عبدالرؤف صاحب ایسے لوگوں کو بلوچستان لے جانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ پاکستان میں پیسے والوں کی کمی نہیں۔ ہمارے پاس میاں منشاء، ملک ریاض حسین، صدر الدین ہاشوانی، عقیل ڈیڈی اور دوسرے ارب پتیوں بشمول اخباری مالکان اور دوسرے بڑے بڑے سرمایہ داروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن سے میری درخواست ہے کہ انسانیت کی خاطر، اپنے مسلمان بھائیوں کی خاطر اور پاکستان کی بقا کے لئے بلوچستان میں اپنے بھائیوں کی مدد کریں۔ ہم عوام امریکا ، بھارت اور دوسرے دشمن ممالک کی بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی سازش کا بہترین مقابلہ اپنے بھائیوں کی مدد کر کے ہی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی فلاحی تنظیم پر اعتماد نہیں کرتے تو خود یا اپنے کسی اعتماد کے فرد یا ادارے کے ذریعے بلوچستان میں غریب عوام کی مدد کریں مگر یہ کام کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسے نیک کاموں کے لئے تو ویسے بھی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں ”کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے پھر اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے‘ اللہ ہی (رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور اُسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے“ (سورة بقرة آیت 245) اور پھر اس سورة میں آیت نمبر 261 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی سی ہے جو سات بالیاں اُگاتا ہے، ہربالی میں سودانے ہوتے ہیں اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے، کئی گنا کر دیتا ہے.... “
یقیناً بلوچستان کے لوگ ایک بہت بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں لیکن کیا اس سے زیادہ بڑا امتحان ہمارا نہیں جب ہمیں اللہ دے کر ہماری آزمائش کر رہا ہے۔ اللہ کوہمارے پیسے کی ضرورت نہیں وہ تو یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم میں سے کون اس کی راہ میں مال خرچ کر کے ایسی تجارت کرتا ہے جس میں کوئی گھاٹا نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم سے کون کون اللہ کو قرضہ حسنہ دے کر اپنی دنیا و آخرت کو سنوار تا ہے۔