سیاست، شاعر اور لاتعلق سماج

November 12, 2017

روز محشر کیسا ہوگا؟ شاید ناداروںپر یہاںگزرتے ہر دن جیسا ہوگا! میں اس وقت کراچی کے دوسرے بڑے سرکاری، سول اسپتال کے ایمرجنسی گیٹ کے باہر ایمبولینس کے انتظار میں کھڑا ہوں ۔ ہر طرف مریض اور ان کے تیماردار سرگرداں آجارہے ہیں، گویا پورا شہر بیمار ہے۔ پچھلے دنوںایک پرائیویٹ اسپتال بھی جانا ہوا تھا مگر وہاں ہنگام نہیںسلیقہ تھا، لباس پوشاک ، بڑی گاڑیاں آسودگی کا پتہ دے رہی تھیں۔ یہاںنقشہ ہی مگر دوسرا ہے،ایک فلاحی ریاست میں مرد وزن جیسے اپنی قسمت پر نوحہ خوانی کررہے ہوں۔ میرے سامنے پشتو کے نامور شاعر اور پیارے انسان ریاض تسنیم اسٹریچر پر ہیں۔ ادبی حلقوں کی یہ جانی پہچانی شخصیت جگر کے عارضے میںمبتلا ہے۔سول اسپتال اگرچہ یومیہ ہزاروں افراد کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کررہا ہے لیکن حکومت کی دیگر مشاغل اور ڈاکٹروں کی نجی اسپتالوں میںمصروفیت سمیت متعدد وجوہ کی بنا پر یہاں بعض اوقات مریض اس توجہ سے محروم رہ جاتے ہیں جو ایک پاکستانی کی حیثیت سے ان کا استحقاق ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہ اسپتال ملک کی غالب اکثریت یعنی’ جمہور‘ کا واحد سہارا ہیں ۔ مایہ ناز ریاض تسنیم کو بھی سہولتوں کے فقدان کے پیش نظر سول اسپتال سے نجی اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ ان کے جگر کا عارضہ حساس اسٹیج پر ہے، وہ عمر بھر زندگی کے اسٹیج پر خونِ جگر دیتے ہوئے قوم کے شعور کی آبیاری و احساس کی بیداری کے لئے سرگرم ر ہےہیں۔ یوںاپنی طرف توجہ کم ہی گئی، لہٰذا معاش کہاں سے آسودگی لاتا۔بلامبالغہ ریاض تسنیم ذات کی نفی کرتے ہوئے قوم کے اثبات کیلئے حیات گزارنے والوں کی کہانی کا جلی عنوان ہے۔ قوم کا احساس تو شاید اب بھی منوں مٹی تلے ہے، لیکن ریاض تسنیم کو اب بھی قوم و وطن کا احساس ہے یہاںتک کہ جگر بے جگری سے لڑتا لڑتا بے جو ہر ہو چلا ہے۔ ایک دوست یہ منظر کشی کرتے کرتے آبدیدہ ہوگیا۔ وہ ریاض تسنیم کو نجی اسپتال منتقل کرتے وقت موجود تھا اور مجھے ان کی علالت کی تفصیلات بتا رہا تھا۔
مملکت خداداد پاکستان سیم و زر سے مالا مال ہے مگر پھر بھی غریب ہے۔ یہاںہر طرف دولت کی فراوانی ہے بلکہ یہ دولت سرحدیں عبور کرتے ہوئے خلیجی ممالک کو آباد کرنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہاںپاکستان میں ایک عام فرد دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے ۔ چائیکہ علاج معالجہ کی سہولتیں دستیاب ہوں۔ یہ اس ریاست کے نظام کا استحصال نامہ ‘اور یہاںکے حکمران طبقات اور اسلام و نظریہ پاکستان کے نام پر صرف اپنے لئے ایک نئی دنیا آباد کرنے والے عناصر کے’ اعمال صالحہ‘ کا منظر نامہ ہے۔ ہم نے وائس آف امریکہ پشتو ریڈیو ’ڈیوہ‘ کے کراچی میںنمائندے فضل عزیز بونیری ، شاعر و ادیب سرور شمال اور کراچی میں سب سے زیادہ شستہ و نستعلیقپشتو بولنے والے یاسر کنڈی سے جاننا چاہا کہ ریاض تسنیم کی تو مالی پوزیشن اس قابل نہیںکہ نجی اسپتال کی فیسوں کا گراں بار اٹھا سکے۔؟ کہنے لگے کہ دیار غیر میں مقیم کچھ وطن دوست مالی مدد کررہےہیں جس کی وجہ سے ابتدائی علاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے جبکہ مکمل علاج کے اخراجات بہت زیادہ ہیں جس کیلئے سلیم صافی صاحب نے موثر رابطے کئے ہیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ جو شاعر و ادیب یا لکھاری رومانیت، عینیت اور تصوریت کی بجائے حقیقی زندگی کی جانب لوگوںکو متوجہ کرنے پر زور دیتے ہیں، وہ اس حقیقت کو کیوںفراموش کردیتےہیں کہ ان کی زندگی کو بھی ایسی ہی حقیقتوں کا سامنا ہے؟ اور طبعی زندگی کے اشیا ، اجسام، واقعات اور معاشی جبریت انہیں بھی بے دست و پا بناسکتےہیں۔لامحالہ زندگی کے کسی سفر میں معاشرے کے رحم کرم پر ہوتے ہیں۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ خیر و شر اور حق و باطل کے ازل سے برپا معرکے کا غیر حل شدہ سوال ہے۔ سوال مگر یہ بھی ہے کہ اگر ایسے ’ہارے ہوئے جواری‘ نہ ہوتے، تو انسان کے فطری حق کے لئے ’جرس‘ اُٹھائے کیسے کوئی شوریدہ سر نظر آتا...
اس سلسلے میںپشتو ریڈیو ’مشال ‘ کے تحت شاہین بونیری نے ایک لائیو پروگرام کا بھی اہتمام کیا۔ راقم کے علاوہ کراچی کے وکیل و شاعر جناب ماخام خٹک جس میںمدعو تھے۔ موضوع ریاض تسنیم کے حوالے سے فنکاروں و ہنر مندوںکی مالی اعانت میںصاحبِ حیثیت افراد کی عدم دلچسپی تھا۔ اس امر پرافسوس کا اظہار کیا گیا کہ ملک بھر میںکوئی ایسا سرکاری یا فلاحی ادارہ نہیں ہے کہ جو کسی فنکار کی بروقت مدد کرسکے۔ ایسے مواقع پر اکثر انفرادی رابطے، کوششیں، اپیلیں اور مطالبے ہوتے ہیں جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے۔ یہ بھی کہا گیا کہ کراچی میں مختلف نسلی و لسانی اکائیوں اور برادریوں کی فعال فلاحی تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن پختون مالداروں کا اس سلسلے میںکوئی کردار نہیں۔ اب ایک ایسے معاشرے میں، جس میںہر مکتب ، مسلک و برادری کا قبرستان بھی اپنا اپنا ہو، جہاں دوسرے کے مُردے کو تدفین تک کی اجازت نہ دی جاتی ہو۔ وہاں ایک ایسے فنکار ، شاعر یا ہنر مند سے بھلا کسی دوسرے کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جو کسی دوسری زبان ، قومیت یا قومی تحریک کے لئے جدوجہد کرتا رہا ہو۔ بلاشبہ یہ المیہ ہے کہ جس دین نے مسلمانوں کو جسدِ واحد قرار دیا ہے اس کے داعی اس قدر خود غرض اور تقسیم در تقسیم ہیں۔ برسر زمین حقیقت بہر صورت یہی ہے..... ایک کراچی پہ کیا موقوف پورے پاکستان میںکوئی ایسا فلاحی ادارہ نہیںہے جس میں کسی پختون کے سرمایہ کی خوشبو کی آمیزش ہو۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخرپختون سرمایہ دار جن کی دولت کے لشکارے نہ صرف یہ کہ پاکستان بلکہ خلیجی ممالک تک میںعام ہیں، وہ کسی فلاحی ادارے، اسپتال، تعلیمی ادارے کے لئے کیوںاپنا کچھ سرمایہ وقف نہیں رکھتے؟اس کا جواب اُن لوگوں پر قرض ہے جو سود بھی کھاتے ہیں، منشیات بھی فروخت کرتے ہیں،مگر عمرے وحج پر جانا نہیں بھولتے!
پھر ایک شاعر ، ادیب، یا لکھاری چونکہ شعوری بلوغت کے حامل افراد سے واسطہ رکھتا ہے اس لئے وہ عام توجہ کا مستحق کم کم ہوتا ہے۔ ناخواندہ، شعر و ادب سے نابلد سماج میںنابغہ افراد کی قدر و منزلت کا اندازہ کیونکر لگایا جاسکتا ہے۔ وہ سیاسی ، فکری و نظریاتی طبقہ شعر و ادب نے جن کو مہمیز دیا ، وہ بھی طبقاتی تبدیلی اور موقع پرستی کی وجہ سے لاتعلق ہوگیاہے۔ معلوم تاریخ میں باچا خان کے ماسواکسی نے اس جانب شعوری کوشش ہی نہیں کی۔ باچا خان نے بیت المال قائم کیا تھا جو بلا تفریق فنکار و عوام سب کے کام آتارہا۔ فرنگی استعمار اور ازاںبعد پاکستانی حکمران طبقات سے کش مکش کی وجہ سے باچا خان اپنی تعلیمی ، اصلاحی اور فلاحی تحریک آگے نہ لے جاسکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نمود ونمائش والی تقویٰ سے خالی عبادتوں کیلئے تو پختونوںکے پاس بے حساب دولت ہے، مگر اسپتال بنانے کے حوالے سے وہ فکر ی افلاس کا شکار ہیں۔
لمحہ موجود کا نوحہ یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کے درد سے اس باعث بھی لاپروا ہے کہ راہبر راہزن بن چکا،سیاست عبادت کی بجائے کاروبار بن چکی،اور سماج پر سب سے زیادہ اثرانداز من من پگڑی و واسکٹ پہننے والے رب العالمین کے اس فرمان پر عمل کے لئے خود و دیگر کو آمادہ نہیںکرتے کہ’’ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا.....‘‘