نیا انتخابی ضابطہ اخلاق بنائیں

November 14, 2017

آئندہ عام انتخابات کے پرامن اور باوقار ماحول میں انعقاد کے لیے ملک میں ایک سیاسی ضابطہ اخلاق کی تشکیل اور نفاذ کی ضرورت اور اہمیت بہت واضح ہے۔ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں کی جو دھواں دھار مہم جوئیاں مدت سے جاری ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی بد تہذیبی کے مظاہر کچھ کم نہیں جبکہ سوشل میڈیا نے تو فی الحقیقت طوفان بدتمیزی برپا کررکھا ہے،قابل احترام ریاستی ادارے بھی جس بے احتیاطی کے ساتھ ہدف تنقید بنائے جا رہے ہیں، اس فضا میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم کا چلایا جانا یقیناًملک کے طول و عرض میں شدید کشیدگی اور انتشار کا باعث بنے گا۔الیکشن کمیشن کے جاری کردہ قواعد و ضوابط حالات کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے ایک حد تک کردار ضرور ادا کرسکتے ہیں لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین خود طے کریں کہ انہیں انتخابی مہم کو اخلاقی حدود اور تہذیب و شائستگی کے دائرے میں رکھنا ہے اور اس مقصد کے لیے باہمی مشاورت سے اپنے طور پر ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دیں اور پھر سب دیانت داری کے ساتھ اس کی پابندی کریں۔اس ضمن میں گزشتہ روز ملک کی حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن ) کی جانب سے بظاہر ایک اچھا آغاز کرتے ہوئے اتفاق رائے سے طے کیا گیا ہے کہ انتخابی مہم میں ریاستی اداروں کے ساتھ مزاحمت کی روش نہیں اپنائی جائے گی جبکہ اب تک حکمراں جماعت اس معاملے میں اختلاف کا شکار دکھائی دے رہی تھی اور پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں متعدد عدالتی مقدمات سے دوچار پارٹی کے سربراہ میاں نواز شریف اور ان کے ہم خیال اداروں سے جنگ کے موڈ میں نہ صرف نظر آرہے تھے بلکہ یہ محاذ آرائی عملاً جاری بھی تھی۔مسلم لیگ (ن ) کی اعلیٰ قیادت نے یہ فیصلہ اتوار کو لاہور میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے دیے گئے ایک غیر رسمی عشائیے کے موقع پر کیا۔ یہ اجلاس در حقیقت پارٹی قیادت کے حالیہ دنوں میں ہونے والے متعدد اجلاسوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھا جو خاص طور پر آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کے لیے طلب کیے جاتے رہے۔ اجلاس کے بعد سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے میڈیا کو بتایا کہ ’’پارٹی نے اصولی طور پر طے کیا ہے کہ کسی بھی ریاستی ادارے کے ساتھ مزاحمانہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جائے گا اور ہماری توجہ کا اصل محور 2018ء کے انتخابات کی تیاری ہوگی۔‘‘ بیشتر سنجیدہ سیاسی تجزیہ کار مسلم لیگ (ن) کو پہلے ہی یہ مشورہ دیتے چلے آرہے ہیں کہ اس کی قیادت کے خلاف عدالتوں میں جو مقدمات زیر سماعت ہیں ان سے اداروں کے خلاف محاذ آرائی کے ذریعے گلوخلاصی کی کوشش قیادت اور پارٹی دونوں کے لیے مزید مسائل اور مشکلات کا سبب بنے گی لہٰذا عدالتوں میں دفاع قانونی طریق کار کے مطابق ہی کیا جانا چاہیے اور انتخابی مہم وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومتوں کی کارکردگی کی بنیاد پر چلائی جانی چاہیے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دوسری بڑی سیاسی جماعتیں بھی جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نمایاں ہیں اور جنہیں دوصوبوں میں تعمیر و ترقی کے عمل کو فروغ دینے اور عوام کو زندگی کی آسانیاں فراہم کرنے کے لیے پانچ سال کی مدت گزشتہ انتخابات میں رائے دہندگان کے فیصلے کے تحت حاصل ہوئی تھی، وہ بھی اپنی انتخابی مہم اپنی کارکردگی اور قابل عمل منصوبوں پر مشتمل انتخابی منشور کی بنیاد پر چلائیں جبکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے پر تنقید بھی حقائق کے مطابق اور اخلاقی حدود کے اندر کی جائے ،اس مقصد کے لیے انتخابی اخراجات اور فنڈز کے حوالے سے قواعد سمیت سیاسی جماعتیں اپنا ضابطہ اخلاق خود وضع کریں اور سب اس کی پابندی کریں۔پرامن اور صحت مند ماحول میں الیکشن کے انعقاد اور انتخابی عمل کو انتشار و افتراق کے بجائے عوام کی تربیت اور قومی تعمیر کا ذریعہ بنانے کے لیے یہ اقدام لازمی ہے اور وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں سیاسی قیادتوں سے جلد رابطے کرنے چاہئیں۔