اسرائیل نسلی تعصب کا بدنما داغ تحریر:خواجہ محمد سلیمان…برمنگھم

November 20, 2017

برطانوی وزیرخارجہ آرتھرجیمزبلفور نے 1917میں ایک خط کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جائے گا اور یہ یہودیوں کا وطن ہوگا۔ بل فور نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ جو لوگ فلسطین میںاس وقت آباد تھے ان کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے گا، اکثر تاریخ دان یہی کہتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست اس ڈیکلریشن کے حوالے سے وجود میں آئی کیونکہ امریکہ اور برطانوی صیہونی لابی نے اس سے یہ مطلب اخذ کیا کہ تمام روح زمین پر رہنے والے یہودیوں کو یہ حق ہوگا کہ وہ فلسطین میںجاکر آباد ہوں اس وقت سے لیکر آج تک دنیا کے ہر کونے سے یہودی جاکر فلسطین آباد ہورہے ہیں اور وہاں سے فلسطینیوں کو بے گھر کیا جارہا ہے۔ بل فور ڈیکلریشن کے پہلے حصہ پر عمل کرنے کیلئے برطانوی اور امریکی سامراج نے جان بوجھ کر فلسطین سے فلسطینیوں کو بے گھر کیا اور اس کی وجہ نسل پرستی اور تعصب تھا جو یورپین سفید فام نسل عربوںکے ساتھ رکھتے تھے ویسے تو یہودی بھی آل اسرائیل ہونے کے ناتےعربوں سے مختلف نہیں تھے لیکن یہ یورپ میں صدیوںسے رہنے کیوجہ سے بھی سفید فام نظرآتے تھے ویسے تو دیکھا جائےتو صاف ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی یہ اولاد کئی ہزار سال پہلے بہتر مستقبل کیلئے یورپ آئی اور یہاں آکر انہوںنے اپنا کاروبار زندگی چلایا ان ملکوں کی شہرت حاصل کی، ہاں یہ ضرور تھا کہ بعض عیسائی بادشاہوں اور خاص کر رومن کھیتلک چرچ نے یہودیوں کے خلاف مہم چلائی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکانے کی رومن آرمی کے ساتھ سازش کی تھی لہٰذا انکو اپنی بادشاہی میںرہنے نہ دیا جائے یہی وجہ ہے کہ یورپین یہودی جاکر مسلمان ملکوں میں پناہ لیتے رہے، مسلمانوں نے بھی انکو پیغمبروں کی آل و اولاد سمجھ کر ان کی عزت و احترام کیا اور ان کو پورے حقوق دیئے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہودیوں پر ظلم کرنے والے سفید فام یورپین نسل کے عیسائی تھے۔ ہٹلر نے اس ظلم کو انتہا تک پہنچا دیا آج بھی ہٹلر کے ماننے والے یہودیوں کیخلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور یہودیوں پر کئی طرح کے الزامات لگاتے ہیں ان الزامات میں کتنا سچ ہے وہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوںلیکن یہ حقیقت ضرور ہے کہ ہرنسل میںاچھے لوگ بھی ہوتےہیں برے لوگ بھی ہوتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ اچھےلوگوں سے مل کر برے لوگوں کا مقابلہ کیا جائے تاکہ دنیا میں برائیاں نہ بڑھیں۔ اسرائیلی ریاست کس طرح وجود میں آئی اور آج یہ ریاست فلسطینیوں کے ساتھ کیا سلوک کررہی ہے اس پر یورپ اور امریکہ میںکشمکش جاری ہے، صیہونی طاقتوں کی یہ کوشش ہے کہ ہر طریقے سے اسرائیلی ریاست کی حفاظت کی جائے، آج اسرائیل ایک طاقتور ملک ہے وہ نیوکلیئر پاور بھی ہے سابقہ امریکی صدر بارک اوباما نے جب فلسطینیوں کے حقوق کی بات کی تو فوراً صیہونی لابی حرکت میںآگئی یہاںتک کہ بارک اوباما کو مستقبل کیلئے خاموش ہونا پڑا۔ امریکی صدارتی الیکشن میں صیہونی لابی اثرانداز ہوتی ہے اس کے برعکس اب لاکھوں مسلمان یورپ اور امریکہ میں بستے ہیں اب وہ بھی اگر فلسطینیوں کے حقوق کیلئے مختلف حکومتوں کو لابی کریںتو اس سے فلسطینیوں کے حقوق کے حق میں بھی رائے عامہ بیدار ہوگی برطانیہ ایک ایسا سامراجی ملک ہے جس نے دنیا کے مختلف حصوں پر جاکر نہ صرف اپنی حکومت قائم کی بلکہ انہوںنے کئی فتنوں کو پیدا کیا مثلاً برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی گئی کیونکہ تقسیم کے فارمولے کے تحت قدرتی طور پر جموںو کشمیر پاکستان کا حصہ تھا لیکن لارڈ مونٹ بیٹن ریڈکلیف کی حماقتوں کی وجہ سے کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ بنادیا گیا ہے جس کے اثرات آج بھی برصغیر پر پڑھ رہے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسی دشمنی پیدا ہوئی جس کی نذر ہزاروں اور لاکھوں انسان متاثر ہوئے لیکن برطانوی حکومت کو آج تک یہ احساس نہ ہوا کہ انہوں نے غلطی کی ہے بلکہ وہ غلطیاں در غلطیاں کرتے جاتے ہیں۔ عراق میںلاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا گیا اور وہاں سے کچھ بھی نہ نکلا جو پروپیگنڈہ امریکہ اور برطانیہ نے صدام حسین کے متعلق کیا تھا وہ سب بوگس نکلا لیکن جورج بش اور ٹونی بلیئر نے آج تک اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کیا۔ سامراجی قوتوں کی یہی بنیادی غلطی ہے کہ وہ دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں اور جب انکے اپنے مفادات پورے ہوجاتے ہیں تو وہ فرار ہوجاتے ہیں، فلسطینیوں کے ساتھ اس دور میںبڑی زیادتی کی گئی اگر اس کا ازالہ نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میںکبھی بھی امن قائم نہیںہوگا اور یہودیوں اور مسلمانوںکے درمیان کشمکش جاری رہے گی اب یہ اسرائیل پر ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے ابھی تو اس نے کشمکش جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے دیکھیں وقت کیا نتائج نکالتا ہے۔