بیروزگاری اور مہنگائی، کرپشن سے زیادہ بڑے مسائل رپورٹ :…منظر الٰہی اور سجاد حیدر

November 23, 2017

کراچی :پاکستانیوں کی بڑی اکثریت نے بیروزگاری اور مہنگائی کو کرپشن سے زیادہ بڑے مسائل قرار دیا ہے ۔عوام کی یہ آراء جنگ اور جیو نیوز کے گیلپ پاکستان اور پلس کنسلٹنٹ کے اشتراک سے اکتوبر 2017 میں کیے گئے سرویز میں سامنے آئیں جن میں مجموعی طور پر ملک بھر سے 6 ہزار سے زائد مرد و خواتین نے حصہ لیا۔سروے کے دوران عوام سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ان کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ گیلپ پاکستان کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ 22 فیصد افراد کے نزدیک بیروزگاری ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جب کہ 21 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ 14 فیصد افراد نے کرپشن ، 8 فیصد نے بجلی کے بحران ، فیصد نےغربت ،7فیصد نے دہشت گردی اور 3 فیصد نے ناخواندگی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جب کہ 2 فیصد کا کہنا تھا کہ امن و امان پاکستان کا اہم مسئلہ ہے۔ 15فیصد افراد کے نزدیک دیگر مسائل اہم ہیں۔ پلس کنسلٹنٹ کے سروے کے نتائج میں بیروزگاری کو 59 فیصد اور مہنگائی کو 58 فیصد نے ملک کا اہم مسئلہ قرار دیا ۔ البتہ یہاں توانائی بحران کو 31 فیصدافراد نے ملک کا اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے تیسرے نمبر پر رکھا۔ جس کے بعد غربت کو 26 فیصد اور کرپشن کو 24 فیصد افراد نے اہم مسائل قرار دیا۔ دہشتگردی کو 15 فیصد، ناخواندگی کو 12 فیصد ، سوئی گیس کے مسائل کو 9 فیصد، پانی کے کمی کو 5 فیصد،صاف پانی کی عدم فراہم کو 3 فیصد ، ناانصافی کو 4 فیصد ، جبکہ رشوت خوری کو بھی 4فیصدنے ملک کا اہم مسئلہ قرار دیا
آمریت یا جمہوریت ، پاکستانیوں کی اکثریت کس کی حامی؟
پاکستانیوں کی بڑی اکثریت آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کو بہترین نظام حکومت سمجھتی ہے لیکن انہیں ملکی اداروں میں سب سے زیادہ اعتماد افواج پاکستان پر ہے۔
سروے میں لوگوں سے دومختلف سوالات پوچھے گئے کہ ان کے نزدیک آمریت یا جمہوریت میں سے بہترین نظام حکومت کیا ہے اور یہ کہ کس ملکی ادارے پر انہیں سب سے زیادہ اعتماد ہے ؟ گیلپ پاکستان نے جب لوگوں سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں آمریت اور جمہوریت میں سے کون سانظام حکومت بہتر ہے؟ اس کے جواب میں 81 فیصد لوگوں نے رائے دی کہ پاکستان کے مسائل کا حل اور ترقی جمہوریت میں ہےجبکہ صرف 19 فیصد نےکہا کہ فوجی حکومت یعنی مارشل لاء ہی کے زیر اثر پاکستان ترقی کرسکتا ہے۔
یہی سوال پلس کنسلٹنٹ نے بھی لوگوں سے پوچھا جس کے جواب میں 68فیصد افراد نے جمہوریت کو بہترین نظام حکومت قرار دیا جب کہ 32 فیصد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل آمریت ہے۔گیلپ پاکستان نے اپنے سروے میں جب لوگوں سے پوچھا کہ انہیں کس ادارے کے مجموعی کردار پر سب سے زیادہ اعتماد ہے؟ تو اس کے جواب میں سب سے زیادہ 82فیصد افراد نےافواج پاکستان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ دوسرے نمبر پر 62 فیصدافراد نے مذہبی اسکالرز پر اور تیسرے نمبر پر 57 فیصد نےتعلیمی ادارے کو ترجیح دی۔53فیصد افراد نے عدالتوں پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔الیکٹرانک میڈیا پر 50 فیصد، اخبارات اور جرائد پر 42 فیصد ، بجلی فراہم کرنے والے اور بلدیاتی اداروں پر 29 ، 29 فیصد، سیاستدانوں پر 26 فیصد، پولیس پر 23 فیصد، کسٹم کے محکمے پر 22 فیصد جبکہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ پر 17 فیصد افراد نے اعتماد کا اظہار کیا ۔
یہی سوال جب پلس کنسلٹنٹ نے لوگوں سے پوچھا تو نتائج اگرچہ تھوڑے بہت مختلف تھے مگر افواج پاکستان پر لوگوں کی اکثریت یعنی 72 فیصد نے اعتماد کا اظہار کیا۔ دوسرے نمبر پر یہاں بھی 56فیصد نے مذہبی اسکالرز پر، 42 فیصد نے پولیس پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ عدالتوں پر 34 فیصد، الیکٹرانک میڈیا پر 29 فیصد، اخبارات اور جرائد پر 37فیصد ، بجلی فراہم کرنے والے اداروں پر 32 فیصد، سیاستدانوں پر 22 فیصد، کسٹم کے محکمے پر 14 فیصد جبکہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ پر 19 فیصد نے بھروسے کا اظہار کیا۔پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں ایک دلچسپ بات جو سامنے آئی وہ یہ کہ خیبرپختون خوا میں افواج پاکستان (80 فیصد) کے بعد دوسرے نمبر پر 72 فیصد لوگوں نے پولیس پر اعتماد کا اظہار کیا ۔
ووٹ کیوں دیتے ہیں؟
سروے کے دوران لوگوں سے یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ کس وجہ سے کسی بھی امیدوار یا جماعت کو ووٹ دیتے ہیں؟
گیلپ پاکستان کے نتائج کے مطابق تقریباً ہر تین میں سےایک شخص نے ووٹ دینے کی وجہ سے ترقیاتی کاموں کو قرار دیا۔ سروے میں 29فیصد افراد نے کہا کہ وہ اپنی پسندیدہ پارٹی کو ترقیاتی کام شروع کرنے کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں ۔ دوسرے نمبر پر 13 فیصد لوگوں نے کہا کہ انہیں اپنی پسندیدہ جماعت کے سربراہ پسند ہیں اس لیے وہ اسے ووٹ دیتے ہیں۔ تیسرے نمبر 10 فیصد افراد کے نزیک وہ سیاسی جماعت کی ایمانداری کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں۔سروے میں ایسے افراد جنہوں نے یہ جواب دیا کہ انہوں نے ابھی اس بات کا فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس جماعت کو ووٹ دیں گے سے جب وجہ پوچھی گئی تو اکثریت37فیصد کا کہنا تھا کہ کیونکہ ان کے نزدیک سیاستدان قابل اعتبار نہیں ہیں۔
پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں بھی25فیصد افراد نے کہا کہ وہ اپنی پسندیدہ جماعت کو ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں جب کہ17فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ جس جماعت کو ووٹ کرتے ہیں اس کی وجہ اچھی اور ایماندار قیادت ہے۔ تیسرے نمبر جو دلچسپ بات پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں سامنے آئی وہ یہ تھی کہ 16فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ اس وجہ سے اپنی پسندید جماعت کو ووٹ اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ شروع سے اسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔
کیا پاکستان کی سمت درست؟
سروے میں عوام سے مزید سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان درست سمت میں جارہا ہے؟
گیلپ پاکستان کے سروے میں 23 فیصد افراد نے کہا کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے جب کہ 42 فیصد نے کہا کے مکمل تو نہیں مگر ملک کسی حد تک درست سمت میں جا رہا ہے ۔اس کے برعکس 32 فیصد افراد کا خیال تھا کے ملک درست سمت میں نہیں جارہا ۔ 3 فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
پلس کنسلٹنٹ کے سروےمیں 11 فیصد نے کہا کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے جب کہ 47 فیصد کسی حد تک درست سمت میں جانے کی رائے دی ۔ البتہ 35 فیصد نے اس رائے سے اختلاف کیا اور کہا ملک درست سمت میں نہیں جارہا۔ 7 فیصد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
پاکستان کا سب سے بڑا دوست اور دشمن کون؟
دونوں سرویز میں پاکستان کے بہترین دوستوں میں عوام نے چین کو سرفہرست رکھا جب کہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب اور تیسرے نمبر پر ترکی رہا ۔
گیلپ پاکستان میں 78 فیصد نے چین ، 14 فیصد نے سعودی عرب کو پاکستان کا بہترین دوست قرار دیا۔
پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں جہاں لوگوں کے پاس ایک زائد دوست منتخب کرنے کا آپشن موجود تھا، میں 92 فیصد نے چین ، 49 فیصد نے سعودی عرب کو پاکستان کا بہترین دوست قرار دیا ۔
اسی طرح عوام کی نظر میں دونوں سرویز میں بھارت پاکستان کا دشمن اول ہے ۔ گیلپ پاکستان میں 66فیصد نے بھارت کو اور 23 فیصد نے امریکا کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔
یہاں بھی پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں لوگوں کے پاس ایک زائد جوابات کا آپشن موجود تھا اور 95 فیصد نے بھارت کو اور 64فیصد افراد نے امریکا کو پاکستان کا بڑا دشمن قرار دیا ۔
ادارتی نوٹ:
یہ سروے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ پاکستانی اداروں گیلپ پاکستان، پلس کنسلٹنٹ نے جنگ، جیو اور دی نیوز کےلیے الگ الگ کیے ہیں ۔ ان میں مجموعی طور پر ملک بھر سے شماریاتی طور پرمنتخب 6 ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا ۔
یہاں واضح رہے کہ اس قسم کے سرویز کو حتمی تصور نہیں کیا جا سکتا اور یہ صرف رائے عامہ کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں اور ان میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے ۔ جیو اس طرح کے سروے قومی امور پر پیش کرتا رہا ہے ۔
ادارتی نوٹ:
یہ سرویز بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ پاکستانی اداروں گیلپ پاکستان، پلس کنسلٹنٹ نے جنگ-جیو -نیوز ((JGNکےلیے الگ الگ کیے ہیں ۔ ان میں مجموعی طور پر ملک بھر سے شماریاتی طور پرمنتخب 6 ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا ۔
یہاں واضح رہے کہ اس پول کے لیے دو مختلف اداروں کی خدمات حاصل کرنے کا مقصد رائے عامہ کو مزید شفاف طریقے سے سامنے لانا ہے۔اس قسم کے سرویز کو حتمی تصور نہیں کیا جا سکتا اور یہ صرف رائے عامہ کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں اور ان میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے ۔
دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز رائے عامہ کو جاننے کے لیے وقتاً فوقتاًاس قسم کے سروے کرواتے ہیں ۔ جیو نیوز پاکستان کا بڑا میڈیا ہاؤس ہونے کے ناطے ماضی میں بھی اس قسم کے سرویز قومی امور پر پیش کرتا رہا ہے۔