اگر یہ نہ ہوتا

December 05, 2017

دوحہ میں موسم میں شدت نہیں تھی مگر تہران میں موسم خاصا سرد ہے، چونکہ ایران میں فارسی بولی جاتی ہے تو مجھے تزک تیموری، تزک بابری، تزک جہانگیری کے ساتھ ساتھ گلستان سعدیؒ اور بوستان سعدیؒ یاد آ رہی ہیں۔ اقبالؒ کے فارسی اشعار بھی یاد آ رہے ہیں شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہو کہ حضرت سلطان باہوؒ نے زیادہ کتابیں فارسی زبان میں لکھیں۔ میں نے کئی عرب ممالک دیکھے اور پھر ایک قوم کے طور پر کھڑے ہونے والے ایرانیوں کو دیکھا تو ایک فرق صاف محسوس ہوا کہ عربوں نے علم سے تعلق جوڑا نہیں اور ایرانیوں نے علم کو چھوڑا نہیں۔
آج چونکہ میرا ایران میں پہلا دن ہے اور میں تہران کے ایک بڑے ہوٹل میں چند منٹ پہلے آیا ہوں اور اب اس کی اٹھارہویں منزل کے ایک بالائی کمرے سے یہ سطور رقم کر رہا ہوں مجھے ابھی بہت سے ایرانیوں سے ملنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا، البتہ میں جس کانفرنس میں شرکت کے لئے تہران آیا ہوں اس میں دنیا بھر سے مختلف دانشور شریک ہیں یہاں کانفرنس میں شریک کئی غیرملکیوں سے راستے میں ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی ہے۔ ایرانیوں سے ملاقاتوں کے بعد ہی ایران پر تبصرہ زیادہ جامع انداز میں کرسکوں گا۔ فی الحال اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ایرانیوں نے چینیوں کی طرح مغربی لباس کو اپنا لباس بنا لیا ہوا ہے۔ یہاں خواتین بھی زیربرقعہ مغربی لباس ہی استعمال کرتی ہیں۔ ایرانیوں نے چینیوں کی طرح انسانوں سمیت درختوں کو سید ھا رکھا ہوا ہے مگر چینیوں اور ایرانیوں میں ایک بنیادی فرق ضرور ہے چینی کام کو جلد نمٹاتے ہیں جبکہ ایرانی ذرا تسلی سے کام کے عادی ہیں۔ باقی بطور قوم چینی بھی اہم ہیں اور ایرانی بھی اہم ہیں۔ چین جنگوں سے بچا رہا، اس نے ساری توجہ ترقی پر دی مگر ایران ایسا ملک ہے جو جنگوں میں رہ کر بھی ترقی کر گیا، جسے دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا تھا مگر ان تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران ترقی کر گیا، ایران بہت سے شعبوں میں ہم سے آگے ہے۔ اس کا تذکرہ کسی اگلے کالم میں کروں گا۔
یہاں مجھے جی سی یو کے دو اساتذہ بھی شدت سے یاد آئے کیونکہ وہ فارسی کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کے حامی ہیں ان میں ایک تو ڈاکٹر اقبال شاہد ہیں جبکہ دوسری پروفیسر ڈاکٹر صائمہ ارم ہیں ان دونوں نے لاہور میں فارسی کی خاصی خدمت کی ہے ۔ ایک بات مجھے ضرور کرنی چاہئے جو میں پچھلے چند سالوں سے دیکھ رہا ہوں پتہ نہیں انسانوں نے کیوں اتنی مجبوریاں پال رکھی ہیں کہ سیل فون ان کی جان بن گیا ہے۔ آپ کو اکثر اس بات کا مشاہدہ ہوا ہو گا کہ لوگ ایئر پورٹوں کے لائونجز میں وائی فائی ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ریسٹورنٹوں میں بھی یہی حال ہے اب تو لوگ چائے خانوں پر بھی وائی فائی ڈھونڈتے ہیں بسوں اور ٹرینوں میں بھی یہی صورتحال ہے جہاز جب تک اڑ نہ جائے لوگ موبائل فون کی جان نہیں چھوڑتے اور جہاز اترتا ہے وہ سب سے پہلے موبائل فون آن کرتے ہیں اس موبائل فون سے پہلے بھی زندگی تھی پہلے بھی لوگ سفر کرتے تھے۔ لائونجز میں بیٹھتے تھے۔ ہوٹلوں اور ریستوراتوں میں جاتے تھے مگر وائی فائی نہیں ڈھونڈتے تھے۔ مانا کہ اس موبائل فون نے اطلاعات تک رسائی لمحوں میں سمیٹ دی ہے۔ مگر یہ بھی تو یاد رکھو کہ اس موبائل فون نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے۔
میں کئی مرتبہ دیکھتا ہوں کہ ہوٹلوں میں بیٹھے ہوئے لوگ موبائل فون پر تو لگے ہوتے ہیں مگر سامنے بیٹھے انسانوں سے گپ شپ نہیں کر رہے ہوتے یہی حال بسوں اور ٹرینوں میں ہو گیا ہے۔انتظار گاہوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کچھ خیال کرنا چاہئے ہر وقت انسانوں سے دوری مناسب نہیں۔ موبائل فون نے رشتوں سے بھی دور کر دیا ہے۔ کوئی کسی کو پیاربھری نظروں سے کیا دیکھے اسے تو فون کی سکرین سے فرصت نہیں۔ کچھ دیر کیلئے سوچئے کہ ہم جو کچھ جڑے رہے کہ نام پر کرتے ہیں ۔ کیا اس سے رشتے دوستیاں مضبوط ہوں گی؟ بقول غالب
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا