سر رہ گزر

December 05, 2017

مذہب کے نام پر یا مذہب کیلئے سیاست
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے:مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے خدا کے لئے ملک چلنے دیں مذہب کے نام پر سیاست ناجائز اور مذہب کے لئے یا اس کے مطابق سیاست جائز اور عبادت ہے، اسلام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے یہاں عام ملتے ہیں اور سیاست، اسلامی اصولوں کو پیش نظر رکھنے والے البتہ نظر تو نہیں آتے ممکن ہے حجاب میں ہوں ویسے اب تو مغربی ملکوں میں بھی حجاب پر پابندی اٹھتی جا رہی ہے ہمارے زیر حجاب بھی بے حجابانہ سامنے آ جائیں، یہ بات تو مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ نے واضح کر دی تھی کہ مسلمانوں کو اسلام کے سائے تلے سیاست کرنا چاہئے کیونکہ اگر اس پر اسلام کا پہرہ نہیں ہو گا تو ہم اپنی ریاست کے ساتھ اپنی عاقبت بھی خراب کر بیٹھیں گے، وزیر داخلہ ہوں یا خارجہ ہمارے سارے وزراء اپنی اپنی وزارت کے حوالے سے نوآموز ہیں، اس لئے اگر ان سے کوئی بھول چوک ہو جائے اور وہ اظہار ندامت بھی کر دیں تو ان کے پیچھے لٹھ لے کر نہیں پڑ جانا چاہئے، سوشل میڈیا پر شیریں مزاری کے حوالے سے ایک ٹویٹ پڑھنے کو ملی، اس میں جو کچھ کہا گیا وہ کسی ملحد کا کہنا بھی نہیں ہو سکتا مگر اس پر خاموشی ہے کسی نے شور نہ مچایا، شاید اس لئے کہ دھرنے والوں کواس نے دہشت گرد قرار دیا، اور خاموش رہنے والوں نے غنیمت جانا کہ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
شاید آج برنارڈ شا کا یہ قول سچ ثابت ہو رہا ہے کہ مجھے اسلام پسند ہے مسلمان ناپسند اگر سیاست کرنے والے کے لئے صادق اور امین ہونا ہمارے آئین کے مطابق ضروری ہے تو پھر دین سے سیاست کو کیسے جدا کیا جا سکتا ہے، اسلام سے جان چھڑا کر سیاست کرنے کے لئے کم از کم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اسلامی کا لفظ ہٹانا ہو گا، اور ایسا تب ہی ممکن ہے کہ ہم بھی دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیں۔
٭٭٭٭
برائی سے روکنے کا بُرا انداز
جڑانوالہ میں نوجوان نے فضول خرچی سے روکنے پر باپ اور بھائی کو قتل کر دیا۔ قتل اور وہ بھی باپ اور بھائی کا صرف فضول خرچی سے روکنے پر یہ دل نہیں مانتا، مگر ہمارے ماننے نہ ماننے سے کیا ہو گا قتل تو ہو چکا ہے، البتہ ہم نے اس خبر پر بار بار سوچا کہ آئے دن یہ جو سگے ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں یہ کیونکر ہوتا ہے؟ ہم تک جب خبر لفظوں اور تصویروں کی صورت پہنچتی ہے تو اس میں برائی سے روکنے کا انداز اور دیگر بنیادی باتیں نہیں پہنچتیں، ہم جب کسی کو برائی سے روکتے ہیں تو ہمارا انداز اسے مزید برائی پر پکا کر دیتا ہے اور ہم اصلاح براستہ بے عزتی اور دیوار سے لگا کر کرتے ہیں، اس کے نتیجے میں ایک ایسا غصہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یکدم ہابیل قابیل کے زمانے میں داخل ہو جاتے ہیں، وہ بھی سگے بھائی تھے مگر ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا، اصل وجہ کسی بھی قتل میں انسانی خوفناک رویہ ہوتا ہے جو قتل کا سبب بنتا ہے، اس طرح واقعات میں تیزی آتی جا رہی ہے لگتا ہے ہمارا نظام تو بگڑا ہی تھا کہ اخلاقیات بھی رخصت ہو گئی، اور یہ منظر ہمیں تربیت کے اس فقدان نے دکھایا جس کے ذمہ دار والدین، اساتذہ کے ساتھ نصاب اور قانون پر عملدرآمد نہ ہونا ہے، ہمارے منبر و محراب سے بھی پُر تشدد لہجے میں آوازیں اٹھتی ہیں، نرم لہجے میں علم، دلیل اور منطق کے ساتھ بنیادی اخلاقیات پر سرے سے زور ہی نہیں دیا جاتا، ایک مجادے کے انداز کا مناظرہ ہوتا ہے جس سے فرقہ واریت، نفرت، انتہا پسندی اور بد اخلاقی کو شہ ملتی ہے، ہمیں اس بہیمانہ رویئے کو ختم کرنا ہو گا ورنہ جس رفتار سے بیٹا باپ کو بھائی، بھائی کو ماں بچوں کو قتل کرنے لگی ہے اس کا بھیانک انجام یہ ہو گا کہ خون کے رشتے بھی باقی نہیں رہیں گے چہ جائیکہ انسانی رشتے، ایک نہایت اچھی بات بُرے انداز میں کہنا خنجر خونخوار سے کم نہیں، ہم مانیں یا نہ مانیں دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارے اندر شدت پسندی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔
٭٭٭٭
پاکستان میں سپر مون
ہم بھی چاند چڑھاتے ہیں، خالق کائنات بھی چاند چڑھاتا ہے، ہمارے چاندوں نے ہمیں کیا دن دکھائے، اور اس رحیم و کریم ہستی نے ہمیں کیسا چاند دیا، اور اب تو ایک دو دن سے اپنے چاند کو ہمارے لئے ڈبل کر دیا ہے، چاندنی رات پر دن کا گمان گزرتا ہے، اس نے ہماری زمین پر بھی کئی چاند اتارے ہیں مگر ہم نے ان کا کیا حشر کیا کبھی اس طرح کی توہین چاند پر بھی کم از کم اظہار ندامت ہی کر لینا چاہئے، سپر مون یا عظیم تر چاند اللہ تعالیٰ کے حسن ذوق کا ایک حسین نمونہ ہے، اسے دیکھ کر شکرانے کے نفل پڑھنا چاہئیں، یہ تو اچھا ہے کہ اس نے چاند ہمارے سپرد نہ کیا ورنہ ہم آسمانی چاند کو بھی زمینی چاندوں کی طرح مسلتے کچلتے نگلتے رہتے، شاعری کی حد تک ہم اپنے چاند چہروں کے بڑے ہی قدر دان ہیں؎
کل چودھویں کا چاند تھا شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا
ہم ہر حسین انسان کو چاند کہہ کر ذلیل و خوار کرتے ہیں، ہم چاند پانے کے شوقین، رکھنے کے سلیقے سے عاری ہو چکے ہیں، خوبصورت چیز کو نرمی سے ہینڈل کیا جاتا ہے ہم اسے ہینڈل بنا کر گھما گھما کر توڑ دیتے ہیں، سپر مون ہمارے بہت قریب آ چکا ہے ہاتھ نہیں آیا اسی میں اس کی خیر ہے، حسن تو ہر شے میں دکھائی دے سکتا ہے بشرطیکہ انسانی باطن میں بھی حسن ہو، اگر کسی میں ذوق نہ ہو تو لذت یاب نہیں ہو سکتا، منہ کا ذائقہ خراب ہو تو قند بھی کڑوا لگتا ہے، ہمارے ہاں یہ بھی دستور ہے کہ جب حسن تک رسائی نہ ملے تو اس پر تیزاب چھڑک دیتے ہیں، اور بعض اوقات اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہیں کہ؎
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ
درود و سلام ہو کائنات کے اس چاند پر جسے کھیلنے کو چاند ملا، ہمارا سپر مون وہی ہے۔
٭٭٭٭
پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر
....Oاسکولوں کی بے تحاشا فیسوں کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے جو پورے ملک میں رائج ہو تاکہ یقین آ جائے کہ ہم تعلیم عام کرنے میں تو صادق امین ہیں۔
....Oخبر ہے پہلے کلثوم نواز کو منائو، جاوید ہاشمی کی ن لیگ میں واپسی کے لئے شرط۔
شرط تو نہایت معقول ہے مگر لگتا ہے ٹائم بار ہو گئی ہے۔
....Oعمران خان:نواز شریف کا نظریہ کرپشن، فوج، عدلیہ کے خلاف ہر سازش کر سکتے ہیں۔
آپ اپنا نظریہ اس ٹویٹ میں دیکھ سکتے ہیں جو شیریں مزاری کی صاحبزادی کی جانب سے آن ایئر ہوا، مجھے یقین نہیں تھا ایک شخص نے ٹویٹ لا کر دکھا دیا تو دکھ ہوا کہ ایسا تو کسی نے بھی نہیں کہا، خان صاحب مصلیٰ بچھانے سے پہلے جھاڑو پھیر لیں۔