نان خطائی، برسوں بعد بھی اس کا ذائقہ ’پھیکا‘ نہیں پڑا

December 13, 2017

پچھلے کئی دنوںسے بالی ووڈایکٹر عرفان خان ہر شام پاکستان کے ہر گھر میں دکھائی دیتے ہیں۔۔۔بلکہ درست سمجھے آپ ایک بسکٹ کے اشتہار میں۔ ہم اس اشتہار کی مزید بات کرکے آپ کو بور یا ڈسٹرب نہیںکریں گے بس اتنا کہیں گے کہ واقعی کھانے پینے کے بعضاشیاء انسانوںکے ساتھ ہجرت کرتی رہی ہیں اور تاریخاس کی گواہ ہے۔

بچپن میں جب میںاسکول جاتی تھی تو اکثر ٹھیلوںپر تازہ نان خطائیاں بنتے دیکھتی تھی۔ بہت مرتبہ کھائی بھی اور اب بھی وہ ذائقہ بھولی نہیں۔ میرے ایک کولیگ معین صاحب کا کہنا ہے ’ٹھیلوںپر تازہ نان خطائیاں بنانے کا رواج آج بھی زندہ ہے اور جس علاقے میںہم رہتے ہیںوہاںآج بھی نان خطائی ٹھیلے پر بنتی اور بکتی ہے ۔ لوگ بہت چاؤ سے اسے بارہ مہینے کھاتے اور خریدتے ہیں۔‘

پچھلے دنوںمیںنے کہیں پڑھا تھا کہ اس میٹھی سوغات کی روایت چین سے ہندوستان اور پھر مغلیہ دور میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئی۔ چونکہ لاہور سرحدی شہر ہے لہذا غالب امکان یہی ہے کہ سب سے پہلے اسے زندہ دلان لاہور نے اپنایا۔

آج اسی شہر کے ایک کونے میںبادام اور دیگر میوہ جات کی بنی نہایت مشہور اور خستہ نان خطائی ملتی ہے اور جسے ’لاہوری‘جس شہر کا بھی دورہ کریں، اپنے میزبان کے لئے فخریہ یہ سوغات لے کر جاتے ہیں۔ یہ شہرت کا ہی صلہ ہے کہ کراچی میںبھی آج اسی برانڈ اور اسی ذائقے کے ساتھ نان خطائی ملتی ہے۔

’نان خطائی‘ سے متعلق تاریخی خوالے بتاتے ہیںکہ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی’چھ‘ ہے یعنی یہ چھے اجزا کے اشتراک سے تیار کی جاتی ہے جس میں آٹا، انڈے، چینی، مکھن، گھی اور بادام شامل ہیں۔

مورخین کاکہنا ہےکہ بھارتی ریاست گجرات کا ساحلی شہر سورت نان خطائی کی جائے پیدائش ہے۔ سولہویں صدی کے اختتام پر مغلیہ دور میں ہالینڈ کے دو تاجروں نے سورت میں تجارت کی غرض سےایک بیکری روٹی تیارکرنے کے لیے قائم کی۔

کچھ سال بعد جب یہ تاجر یہاں سے جانے لگے تو انہوں نے بیکری اپنے ایک ملازم کے حوالے کردی جس کا نام دوتی والا تھا۔ دوتی والا نے تاجروں کے جانے کے بعد روٹی کی تیاری کا کام جاری رکھا اور یہ بیکری دوتی والا بیکری کے نام سے مشہور ہوگئی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ہالینڈ کے مزید تاجر بھی برصغیر چھوڑ چھوڑ کر جانے لگےاور روٹی کی فروخت میں کمی آنے لگی جس کے باعث کاروبار کوخسارے کا سامنا کرنا پڑا۔

کم طلب کی وجہ سے روٹی کی زائد مقدار خشک اور خستہ ہوجاتی تھی، اس لیے اس خشک و خستہ روٹی کو نچلے طبقات میں رعایتی قیمت پر فروخت کردیا جاتا تھا۔ مقامی افراد کو سستی، خشک اور خستہ روٹی کا ذائقہ پسند آگیا جس پر دوتی والا نے روٹی کی شکل تبدیل کی اور اوون میں روٹی کے ٹکڑوں کو خشک کرنا شروع کیا۔ اس طرح مالی مشکلات سے دوچار دوتی والا نے تخلیقی انداز سے ڈچ روٹی کو تیار کرکے نان خطائی کی صورت میں روایتی میٹھی سوغات تیار کرلی۔

اس طرح نان خطائی کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ یہ روایتی نازک سوغات مغل بادشاہوں میں بھی کافی مقبول تھی اور مختلف مواقع پر شاہی خاندان کو نان خطائی تیار کرکے پیش کی جاتی تھی۔ شاہی خاندان کے افراد خوشی کے لمحات کو نان خطائی کے ساتھ مناتے تھے۔

اور پھر لاہور کے ذریعے سے پاکستان میں اس کا آغاز ہوا۔ اس روایتی سوغات سے لطف اندوز ہونے کے لیے ملک بھر سے لوگ لاہور آتےتھے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پورے پاکستان میں اپنی جگہ بناتی چلی گئی اور اب بچہ بچہ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔