حدیبیہ پیپر ملز کیس، خصوصی پراسیکیوٹر کی تعیناتی پر سوالات پیدا ہوگئے تبصرہ:…طارق بٹ

December 14, 2017

اسلام آباد:…حدیبیہ پیپر ملز کیس سے متعلق عدالت عظمیٰ میں نیب کی جانب سے خصوصی پراسیکیوٹر کی تعیناتی پر سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے سینئر وکیل شاہ خاور کو خصوصی پراسیکیوٹر نامزد کیا ہے۔وہ بطور ڈپٹی اٹارنی جنرل اور لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جسٹس کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں تاہم جوڈیشل کمیشن نے انہیں بحیثیت جج کنفرم نہیں کیا تھا۔قومی احتساب آرڈ یننس بھی چیئرمین نیب کی جانب سے اس نامزدگی سے متعلق اختیارات پر بھی سوالات اٹھار ہا ہےکیوں کہ یہ اختیار پراسیکیوٹر جنرل کو حاصل ہے۔سیکشن 8کی شق 5کے مطابق، پراسیکیوٹر جنرل ، چیئرمین نیب کی منظوری سےکسی بھی ٹریبونل یا عدالت بشمول عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں مقدمات کی پیروی کے لیے خصوصی پراسیکیوٹریا وکیل کو تعینات کرسکتا ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ خصوصی پراسیکیوٹر کی نامزدگی پراسیکیوٹر جنرل کے اختیار میں ہے، جو چیئرمین نیب کی منظوری سے ایسا کرتا ہے، جس سے یہ اختیار چیئرمین نیب کو منتقل نہیں ہوجاتا، جنہوں نے بہر حال شاہ خاور کو بحیثیت خصوصی پراسیکیوٹر تعینات کیا ہے۔گزشتہ ماہ پراسیکیوٹر جنرل اپنے 3برس کی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے تھے اور تاحال کسی پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی نہیں ہوئی ہے۔تاہم ، سیکشن 28کی شق(a)کے مطابق چیئرمین نیب یا ادارے کا کوئی بھی افسر مجاز ایسے افسران اور اسٹاف کی تعیناتی کرسکتا ہے۔اس شق میں کسی خصوصی پراسیکیوٹر کا ذکر نہیں ہے۔تاہم اگر اس طرح کے پراسیکویٹر ، افسران یا اسٹاف کی تعریف پر پورا اترتے ہیں جو نیب کی کارکردگی بہتر کرسکیں ، تو چیئرمین نیب کو اختیار ہے کہ وہ انہیں تعینات کرسکیں۔نیب سربراہ ایسے افسران اور اسٹاف کی تعیناتی کرسکتے ہیں تاہم، ان کی تنخواہ کے تعین کے لیے صدر پاکستان کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔جیسا کہ شق (c)میں بیان کیا گیا ہے۔یہ ممکن ہے کہ صدر مملکت ، شاہ خاور سے کیے گئے معاہدے کے معاوضے کی توثیق نہ کریں ۔وہ پہلے ہی دو مجوزہ ناموں پر اعتراض کرچکے ہیں ، تاہم لگتا ہے چیئرمین نیب اس اسامی کو پورا کرنے کے لیے جلدی میں ہیں۔سیکشن 8کے مطابق، صدر مملکت، چیئرمین نیب کی مشاورت سے کسی بھی ایسے شخص کو پراسیکیوٹر جنرل تعینات کرسکتے ہیں جو عدالت عظمیٰ کے جج تعینات ہوسکے۔اس حوالے سے وفاقی حکومت کی رائے واضح ہے کہ پراسیکیوٹر کی نامزدگی اس کا اختیار ہے اور چیئرمین نیب سے مشاورت کا مقصد پراسیکیوٹر جنرل اور نیب سربراہ میں ہم آہنگی برقرار رکھنا ہے۔عدالت عظمیٰ میں حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل پر نیب پراسیکیوٹری کی کارکردگی کے باعث مسلسل شرمندگی کے باعث، جاوید اقبال نے ایک وکیل کا خصوصی پراسیکیوٹر کے طور پر انتخاب کیا ہے۔ابتدائی عرصے میں شاہ خاور کا پیپلز پارٹی سے طویل تعلق رہا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی تقسیم کرنے والے ایک شخص کو انہوں نے تھپڑ بھی رسید کیا تھا۔رواں برس فروری میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تین رکنی ججوں کے بینچ کی حیثیت سے کہا تھا کہ عدالتی کارروائی میں حکومت کا پرائیویٹ وکلا ءکو شامل کرنا مناسب نہیں ہے۔19صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عمل بند ہونا چاہئے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ پرائیویٹ افرا د کو حق ہے کہ وہ کسی بھی وکیل کی خدمات حاصل کریں ، جب کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس لاءافسران موجود ہوتے ہیں ، جنہیں عوامی خزانے سے پیسہ دیا جاتا ہے۔ اگرحکومت یہ کہتی ہے کہ ان کے لاءافسران میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ مقدمات کی پیروی کرسکے تو ہم یہ پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ نااہل افراد کو اس عہدے پر کیوں فائز کیا گیا ہے۔معززچیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے بھی بحیثیت جج لاہور ہائی کورٹ ستمبر،2007میں پنجاب ہائوسنگ ڈپارٹمنٹ کے مقدمے کے دوران پرائیویٹ وکیل کی شمولیت پر اعتراض کیا تھا۔اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ حکومت، لاءافسران کی موجودگی کے باوجود پرائیویٹ وکیل کی خدمات لے کر قومی خزانے کو نقصان پہنچارہی ہے۔