سوچنا بری بات نہیں ہے

January 09, 2018

خاتون خانہ باورچی خانہ میں تھی۔ آلو کی بھجیہ بنا رہی تھی۔ اور گنگنا رہی تھی:
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔
میاں لنگڑاتے ہوئے باورچی خانہ میں آیا اور پوچھا ’’کیوں نہیں مانگوں؟‘‘
خاتون نے ہانڈی میں ڈوئی چلاتے ہوئے کہا ۔ ’’اس لئے کہ اب میں چا ر بچوں کی ماں ہوں۔بڈھی ہو گئی ہوں۔ باغ بغیچوں میں دوڑ نہیں سکتی۔ چھلانگیں نہیں لگا سکتی۔‘‘
’’کیسی باتیں کرتی ہو بیگم۔ ‘‘ میاں نے کہا ۔
’’دل جوان ہونا چاہئے۔‘‘
خاتون خانہ نے کہا ۔ ’’دل جواں ہونے سے جوڑوں کا جان لیوا درد نہیں جاتا۔‘‘
میاں سوچتے ہوئے ، لنگڑاتے ہوئے باورچی خانہ سے روانہ ہو گئے۔
ویسے سوچنے میں کوئی خاص برائی بھی نہیں ہے۔ یقین کیجئے، سوچنے سے آپ کا نظام ہضم خراب نہیں ہوتا۔ نظام ہضم خراب ہوتا ہے فکر مند رہنے سے۔ پچھلے سال کے پچھلے دن میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ بادام کھانے سے اتنی عقل نہیں آتی جتنی عقل دھوکہ کھانے سے آتی ہے۔ بات مجھے اچھی لگی تھی۔ تب سے میں جان بوجھ کر دھوکے کھا رہا ہوں اور عقل مند ہو رہا ہوں۔ اگر آپ بھی میری طرح عقل مند بننا چاہتے ہیں تو پھر بادام کھانے کے بجائے دھوکہ کھائیے۔ اگر سوچنے سے نظام ہضم خراب ہوتا تو سب سے پہلے سقراط کا پیٹ خراب ہوتا اور وہ زہر کا پیالہ پی کر مرنے کے بجائے غسل خانے میں فوت ہو جاتا۔ سوچنے سے نہ تو پیٹ خراب ہوتا ہے اور نہ موت واقع ہوتی ہے۔ ہم دل کی بات زباں تک نہیں لا سکتے ۔ ممانعت ہے۔ ہم شیشے کے گھروندوں میں رہتے ہیں۔ دل کی بات زباں تک لانے سے کئی چیزیں چکنا چور ہو سکتی ہیں۔ پلکوں سے کرچیاں سمیٹنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لئے دل کی بات زباں تک نہیں لاتے۔ اس لئے ہم سوچتے ہیں۔ سوچنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ سوچنا ہماری مجبوری ہے۔
محبت بڑی یا چھوٹی نہیں ہوتی۔ محبت گہری ہوتی ہے۔ یا سطحی ہوتی ہے۔ سطحی محبت کرنے والے وقت بے وقت I love youکہتے ہیں۔ گہر ی محبت کرنے والے آئی لو یو نہیں کہتے۔ وہ اپنے باطن اور ظاہر میں محبت کا مظہر ہوتے ہیں ۔ انہیں آئی لو یو کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
لہٰذا میرے بھائیو، بہنو اور بچو !سوچا کریں۔ جو لوگ ذہنی طورپر غلام ہوتےہیں ، وہ سوچ نہیں سکتے۔ لوگ طرح طرح کے آقائوں کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ سرداروں کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ زرعی، زمینی، کاروباری اور صنعتی آقائوں کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ پیر سائیوں کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ طاقتوروں کے غلام ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ سوچ نہیں سکتے۔ ڈر،خوف، برین واش ہونے کے باعث وہ سوچنےکی خداداد صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ وہموں اور وسوسوں میں جکڑے ہوئے لوگ سوچ نہیں سکتے۔ سوچنے کی بات سن کر اگرآپ کو ہنسی آتی ہے، اگر آپ کو غصہ آتا ہے، یا پھر سوچنے کا عمل آپ کو مضحکہ خیز لگتا ہے، تو جانیے آپ غلام ہیں، آپ بندھے ہوئے ہیں،آپ جکڑے ہوئے ہیں۔ فقیر کی گزارش ہے کہ سب سے پہلے آپ اس بات پر سوچیں کہ آپ سوچ کیوں نہیں سکتے۔ ایک بار نہیں، بار بار سوچیں۔ لگا تار سوچیں کہ کیوں آپ سوچ نہیں سکتے۔ سوچ کے راستے میں حائل رکاوٹیں ہٹنے لگیں گی۔ ذہن کے بند دروازے، کھڑکیاں اور روشندان کھلنے لگیں گے۔ سوچ کی بنجر زمین پر بادل برسنے لگیں گے۔
کوئی ایک ٹیلی وژن چینل کھول کر اطمینان سے بیٹھ جائیں۔ پاکستان کے تمام ٹیلی وژن نیٹ ورک ایک ہی نوعیت کے ایک ہی فارمٹ میں پروگرام دکھاتے ہیں۔ ایک مرد یا خاتون اینکر پرسن چار پانچ شرکا کے ساتھ بیٹھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ سب مختلف سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفر ت کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں دیکھتے بحث مباحثے کے دوران وہ سب ایک ساتھ چیخ چیخ کر بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب مل کر چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے چیخنے چلانے میں اینکر پرسن شامل ہو جاتا ہے۔ بظاہر وہ شرکا کو چپ کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ عین اسی طرح جیسے اسمبلی میں اسپیکر چیختے چلاتے ارکان اسمبلی کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسپیکر کے سمجھانے بجھانے کا اثر یہ نکلتا ہے کہ ارکان اسمبلی اور زور سے چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے ڈیسک بجاتے ہیں اور کبھی کبھار ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں۔ ہلڑ بازی کرنے والے ارکان قانون سازی کرتے ہیں اور ہمارا ملک چلاتے ہیں۔ جیسے حکمران ہوتے ہیں ویسی ان کی حکومت ہوتی ہے۔ یہ طرز عمل پچھلے ستر برس سے بڑی دیانتداری سے جاری و ساری ہے۔ لولے لنگڑے گھوڑے ریس نہیں جیت سکتے۔ سوچیں۔ دوبارہ سوچیں۔ بیرونی ہاتھ کا حوالہ دےکر ستر برس سے ہمارے ناکام حکمراں خود کو بری الذمہ قرار دیتے رہے ہیں مگر دیکھو تو ہاتھ بھی ہمارا ہوتا ہے اور گریباں بھی ہمار اپنا ہوتا ہے۔
سوچیں۔ سوچیں کہ ہمیں معتبر حکمران اور حکومت کیوں نہیں ملتی؟ آپ گھٹیا کھاد سے توانا فصلیں نہیں اگا سکتے۔صنعت گری میں آپ ناقص اور دو نمبر کے خام مال سے ضرب المثل اور اعلیٰ درجہ کی مصنوعات نہیں بنا سکتے۔ ارکانِ اسمبلی حکومت کا خام مال ہوتے ہیں۔ تعلیم یافتہ ذہین اور باکردار ارکان اسمبلی سے اعلیٰ حکومت بنتی ہے۔ اجڈ،جاہل اور بدتمیز ارکان سے ناقص حکومت بنتی ہے۔ آپ سوچیں۔بار بار سوچیں۔
سنیں اور غور کریں کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے رکن اسمبلی نہیں بن سکتا۔ کوئی شخص اپنی مرضی سے اسمبلی میں جاکر بیٹھ نہیں سکتا۔ اب سوچیں کہ ایک شخص رکن اسمبلی کیسے بنتا ہے؟ ایک شخص ہمارے ووٹ سے رکن اسمبلی بنتا ہے۔ اب سوچیں کہ اچھی بری حکومت کے لئے کون اصل میں ذمہ دار ہے؟ گوبر اور گارے سے تاج محل نہیں بنتا۔