آئین پاکستان اور پیغام پاکستان

January 18, 2018

منگل 16جنوری 2018ء کے دن کو بعض حلقے اس اعتبار سے اہم تاریخی دن قرار دینے میں حق بجانب ہیں کہ اس روز ’’قرارداد مقاصد‘‘ اور ’’آئین پاکستان 1973ء‘‘ جیسی اہم متفقہ دستاویز ’’پیغام پاکستان‘‘ کا اجرا کیا گیا جو 1829علما کے متفقہ فتویٰ پر مبنی ہے۔ ایوان صدر اسلام آباد میں مختلف مسالک کے علما و فقہا، معروف اسکالرز اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کے اجتماع میں جاری کی گئی دستاویز دہشت گردی، خونریزی، خودکش حملوں اور اسلامی مملکت کے خلاف بغاوت کو ’’حرام‘‘ قرار دیتی ہے۔ قرآن، حدیث اور سنت کی روشنی میں دی گئی آرا پر مشتمل مذکورہ فتویٰ اور اعلامیہ پر مولانا احمد لدھیانوی اور مولانا امین شہیدی سمیت قومی دھارے سے تعلق رکھنے والے تمام مذہبی مکاتب فکر مثلاً بریلوی، دیوبندی، سلفی وغیرہ کے علما و فقہا نے دستخط کئے ہیں۔ دستاویز کا بنیادی مسودہ ادارہ تحقیقات اسلامی یونیورسٹی آف اسلام آباد نے باقاعدہ کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں صدر مملکت ممنون حسین، وفاقی وزرا خواجہ آصف اور احسن اقبال کے علاوہ چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد، ڈائریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی، صدر وفاق المدارس العربیہ ڈاکٹر عبدالرزاق، صدر مدارس اہلسنت مفتی منیب الرحمن، صدر وفاق مدارس سلفیہ پروفیسر ساجد میر، صدر وفاق المدارس شیعہ علما سید ریاض حسین نجفی، صدر رابطہ المدارس مولانا عبدالمالک نے بھی خطاب کیا۔ مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ ناصر عباس کے مطابق ان کے مکتب فکر کے اعتبار سے اگرچہ مذکورہ نوعیت کے فتاویٰ آیت اللہ کی سطح کی شخصیات جاری کرتی ہیں تاہم اس دستاویز پر شیعہ علما نے یہ واضح کرنے کے لئے دستخط کئے ہیں کہ وہ دستاویز میں کہی گئی باتوں سے متفق ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ صدر ممنون حسین نے ’’پیغام پاکستان‘‘ کا اجرا کرتے ہوئے درست طور پر نشاندہی کی کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تشکیل پانے والا آئین پاکستان ہی ہمارا بنیادی بیانیہ ہے۔ جبکہ علمائے کرام کا فتویٰ اس کی وضاحت و تائید کرتا ہے، اس سے انتہا پسندی و دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور دنیا تک اسلام کی درست تصویر پہنچے گی۔ جیسا کہ تقاریر سے واضح ہے علمی انقلاب دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے، اس آواز کو سن کر مسلمانوں کو اپنے معاشروں میں امن و استحکام یقینی بنانا چاہئے۔ اسی طریقے سے عالمی برادری پر واضح کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے لے کر آج تک ہر قسم کے حالات میں صرف امن کا پرچم تھامے ہوئے ہے اور ’’پیغام پاکستان‘‘ اس کا ٹھوس اعادہ ہے۔ جو قوتیں پاکستان کی ریاست کے بارے میں ایسا ابہام پیدا کرتی رہی ہیں جن کا مقصد غیرملکی ایجنٹوں اور خلفشار پھیلانے والے عناصر کو مدد فراہم کرنا رہا یا ریاست یا فوج کے خلاف خونریزی کو جواز دینا یا مسلح بغاوت فرو کرنے والے اقدامات پر شکوک پیدا کرنا یا خودکش حملوں کو جنت کا راستہ قرار دینا اور مسلک سمیت مختلف نوعیت کے تعصبات کو ہوا دینا رہا، ان سب کی سازشوں کا جواب بلکہ تمام ہی انسانی مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے۔ متفقہ فتویٰ کی صورت میں جو اعلامیہ سامنے آیا وہ ایک لحاظ سے پاکستانی قوم کا اجماع ہے۔ اس باب میں بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے کچھ سوالات آئے ہیں اور بعد میں بھی آسکتے ہیں مگر امید ہے کہ ان کے بارے میں بھی علما و فقہا کا متفقہ فتویٰ رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔ اکابر علما کو اس پر بھی توجہ دینا ہوگی کہ انتخابات کے موقع پر بعض نعروں پر جیت یا ہار کو مذہب سے ملانا کس حد تک درست یا غلط ہے۔ صدر ممنون حسین نے توقع ظاہر کی ہے کہ متفقہ فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ ان لوگوں کی اصلاح اور قلب ماہیت کا ذریعہ بھی بنے گا جو بعض ناپسندیدہ عناصر کے منفی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر راستے سے بھٹک گئے تھے۔ اس باب میں نتیجہ خیز اقدامات بھی کئے جانے چاہئیں۔ غربت، جبر اور استحصال کی چکی میں پسنے والوں کی اصلاح احوال بھی دین متین کا اہم تقاضا ہے۔