عدالتی نظام میںاصلاح ناگزیر

February 01, 2018

انگریزوں کے متعارف کرائے گئے ہمارے عدالتی نظام میں مختلف ادوار میں وقت کی ضرورتوں کے تحت برائے نام ردوبدل تو کیا جاتا رہا لیکن یہ تبدیلی نہ صرف فقہ اسلامی کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ موجودہ دور کے تقاضوں پر بھی پوری نہیں اترتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سائلین برسہا برس تک عدالتوں میں خوار ہوتے رہتے ہیں پھر بھی انہیں انصاف نہیں ملتا۔ عدالتی نظام میں ایک خرابی اس وقت سامنے آئی جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ روز ایک سو سال پرانے مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ یہ مقدمہ خیرپورٹامیوالی ضلع بہاولپور میں واقع 5600 کنال اراضی کے جھگڑے کا ہے جو1918 میں راجستھان (اب بھارت) کی ایک عدالت میں اس وقت دائر ہوا جب اراضی کا مالک شہاب الدین فوت ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ مقدمہ پاکستانی ٹرائل کورٹ میں منتقل ہوا۔ 1970میں ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا جس کے خلاف 1971میں اپیل دائر کر دی گئی۔ 1989میں کیس ٹرائل کورٹ سے ہائیکورٹ میں آگیا جہاں سے 2005میں سپریم کورٹ پہنچا۔ تقریباً 13سال سپریم کورٹ میں رہا۔ بالآخر عدالت عظمیٰ کے موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا ہے کہ متذکرہ زمین شریعت کے مطابق ورثا میں تقسیم کردی جائے۔ فاضل چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ عدالت کسی کو بھی شرعی وراثتی حصے سے محروم نہیں کر رہی۔ پاکستان میں طویل عرصہ سے جوڈیشل پراسس ریفارمز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جسے برسر اقتدار حکومتوں نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اس کے نتیجے میں انصاف کا عمل غیر ضروری طوالت کا شکار ہے اور انتہائی مہنگا بھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے اور اپنے طور پر عدالتی نظام میں اصلاحات کے لئے سرگرم ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے بھی اس حوالے سے اچھا کام کیا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت، ججز اور وکلا اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ آئندہ کسی کو اپنے مقدمے کے فیصلے کے لئے نسل در نسل انتظار نہ کرنا پڑے۔