کیا احتساب عدالت مقررہ وقت پر اپنی کارروائی مکمل کرسکے گی،تجزیہ کار

February 23, 2018

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف پہلے وزارت عظمیٰ سے گئے، پھر پارٹی صدارت سے نااہل ہوئے لیکن شریف خاندان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں، سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق بیس دن بعد نیب ریفرنسز سے متعلق ایک فیصلہ احتساب عدالت سے بھی آنا ہے، اب یہ سوالات سراٹھانے لگے ہیں کہ کیا احتساب عدالت مقررہ وقت پر اپنی کارروائی مکمل کرسکے گی، احتساب عدالت میں تیزی سے کارروائی چل رہی ہے، آج لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعہ اہم گواہ کا اہم بیان ریکارڈ ہوا، ایک لمبے دورانیے کے بعد احتساب عدالت میں پھرسے گواہوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، آج احتساب عدالت میں شریف خاندان کیخلاف کیسوں کی سب سے طویل سماعت ہوئی جو تقریباً آٹھ گھنٹے تک جاری رہی، جس گواہ کا آج بیان ریکارڈ کیا گیا وہ ایون فیلڈ کیس میں سب سے اہم گواہ کی حیثیت رکھتا ہے، جو ٹرسٹ دی گئی جس کے تحت کہا گیا کہ ٹرسٹی مریم نواز شریف تھیں بینیفیشل اونر یا مالک اصل میں حسین نواز ہیں اس ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے اہم سوالات ہوئے، آج ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کی جانب سے اہم گواہ رابرٹ ریڈلے نے ویڈیو لنک کے ذریعہ اپنا بیان ریکارڈ کروایا، رابرٹ ریڈلے نیب کے وہ گواہ ہیں جن کی خدمات جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے حاصل کی تھیں کہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ اصلی ہے یا جعلی ہے، رابرٹ ریڈلے نے ہی شریف خاندان کی ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی قرار دیا تھا جسے جے آئی ٹی نے اپنی فائنڈنگز میں شامل کیا اور جس پر عدالت نے اٹھائیس جولائی کے فیصلے میں تبصرہ کیا تھا کہ کسی وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے دفاع میں جعلی دستاویزات پیش کرے، آج عدالتی کارروائی کے دوران رابرٹ ریڈلے نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ میں نے نیلسن اور نیسکول کے ڈیکلریشن پر تاریخوں کی تبدیلی کا موازنہ کیا، دونوں ڈیکلریشن میں دوسرا اور تیسرا صفحہ ایک جیسا تھا، یہ بتانا ناممکن تھا کہ کون سا صفحہ اصل ہے اور کون سا اس کی نقل جبکہ دونوں صفحات پر موجود تاریخوں میں بھی تبدیلی کی گئی، رابرٹ ریڈلے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ میں 2004ء کی تاریخ کو تبدیل کر کے 2006ء بنایا گیا، یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ اصل میں ٹرسٹ ڈیڈ 2004ء کی ہے، یعنی شریف خاندان کا یہ موقف کہ قطری خاندان سے 2006ء میں انہیں یہ فلیٹس ملے وہ غلط ہے، 2004ء کی تاریخ کو بدل کر 2006ء کیا گیا اور 6کی جگہ ممکنہ طور پر اصل میں 4 درج تھا جسے تبدیل کیا گیا، رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ میں نے دستاویزات کے ٹائپنگ فونٹ کا بھی جائزہ لیا، ٹرسٹ ڈیڈ میں کیلبری فونٹ استعمال کیا گیا جبکہ یہ فونٹ 31جنوری 2007ء تک کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا، یعنی 2006ء کی ٹرسٹ ڈیڈ میں وہ فونٹ تھا جو 2007ء تک کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا، یہ رابرٹ ریڈلے کا وہ بیان تھا جس میں وہ شریف خاندان کی جانب سے پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی قرار دے رہے تھے اور انہی کے مشاہدات پر جے آئی ٹی نے اپنی فائنڈنگز میں بھی ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی قرار دیا تھا ، رابرٹ ریڈلے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ انہیں ٹرسٹ ڈیڈ کا فارنزک جائزہ لینے کیلئے دستاویزات کی کاپیز جون 2017ء میں واجد ضیاء کے بھانجے اور وکیل راجا اختر نے بھیجیں، خواجہ حارث نے آج جرح کے دوران رابرٹ ریڈلے سے سوال کیا کہ آپ وہ ای میل دکھاسکتے ہیں جس میں اختر راجا نے آپ کو دستاویزات کا جائزہ لینے کا کہا تھا، رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا، برطانوی قوانین مجھے کلائنٹ سے کی جانے والی بات چیت کو خفیہ رکھنے کی اجازت دیتے ہیں، خواجہ حارث نے سوال کیا کیا آپ نے تفتیشی افسر کو بتایا کہ آپ کی خدمات تیس جون کو حاصل کی گئیں؟ تو رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ میری خدمات 29جون یا اس کے آس پاس حاصل کی گئیں، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس تفتیشی افسر کو دیئے گئے بیان کی کاپی موجود ہے؟ رابرٹ ریڈلے نے کہا جی ہاں کاپی میرے پاس موجود ہے، وہیں سے دیکھ کر تاریخ بتائی ہے، جس پر خواجہ حارث نے عدالت سے سوال کیا کہ گواہ کے پاس بیان کی کاپی کیوں ہے؟ اس کا مطلب ہے گواہ کو ڈکٹیشن دیا جارہا ہے، رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ میں نے نیب تفتیشی افسر کو نہیں بتایا کہ آف شور کمپنیوں کے ڈیکلریشن راجا اختر کی لاء فرم سے ملے، خواجہ حارث نے کہا کہ آپ کی نیب پراسیکیوٹرز سے کب ملاقات ہوئی؟ رابرٹ ریڈلے نے بتایا کہ راجا اختر کے کہنے پر سردار مظفر اور امجد پرویز سے منگل کو ملاقات ہوئی، ملاقات میں شکیل نامی شخص بھی موجود تھا، مجھے لگا شاید یہ بھی نیب سے ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے مداخلت کرنے کی کوشش کی لیکن شریف خاندان کی وکالت کرنے والے خواجہ حارث نے اس پر برہم ہوکر عدالت سے کہا کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے، میں عدالت چھوڑ دوں گا، اس کو بٹھادیں،جس کے بعد خواجہ حارث نے ریڈلے سے مزید سوال کیا کہ آپ کو جو دستاویزات راجہ اختر نے دیں کیا آپ نے ان پر اپنی رائے سے پہلے تمام دستاویزات کو خود پڑھا تھا تو رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ نہیں میں نے دستاویزات کو تفصیل کے ساتھ نہیں پڑھا، میرا کام ان کا فارنزک معائنہ کرنا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ان سے اصل دستاویزات مانگی تھیں؟ تو رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا نہیں، میں نے ان سے اصل دستاویزات سے متعلق سوال نہیں کیا، خواجہ حارث نے پوچھا کیا آپ نے رپورٹ میں ذکر کیا تھا کہ آپ کو اصل دستاویزات مہیا نہیں کی گئیں تو ریڈلے نے جواب دیا کہ مجھے اصل دستاویزات کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی میں نے اس کا ذکر فارنزک رپورٹ میں کیا ہے، خواجہ حارث نے پوچھا تمام دستاویزات کا مواد ان کی اصلیت پر مبنی تھا، کیا آپ نے تفصیلی جائزہ لیا؟ رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ نہیں مجھے دستاویزات کے مواد میں دلچسپی نہیں تھی میرا کام ان کا فارنزک آڈٹ کرنا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا رپورٹ کے ساتھ منسلک علیحدہ شیڈول کا آپ نے ان سے مطالبہ کیا تو ریڈلے نے جواب دیا کہ جو دستاویزات مجھے جیسے موصول ہوئیں انہیں اسی طرح واپس کرنا میرا ٹاسک تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان سے منسلک شیڈول کا نہیں پوچھا اور نہ رپورٹ میں ذکر کیا، ریڈلے نے جواب دیا نہیں، میں نے ان سے شیڈول کا مطالبہ نہیں کیا نہ ہی یہ میری جاب تھی، خواجہ حارث نے سوال کیا ابھی جو دستاویزات آپ کے پاس ہیں کیا ان کے ساتھ شیڈول منسلک ہے تو ریڈلے نے جواب دیا کہ ان دستاویزات کے ساتھ شیڈول منسلک ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ اس کا مطلب ہے شیڈول ان کے ساتھ منسلک ہے تو آپ کا شیڈول کے ساتھ نہ ہونے کا بیان صحیح نہیں تو ریڈلے نے جواب دیا کہ ہاں اگر یہ شیڈول منسلک ہے تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ میرا بیان غلط ہے، جس کے بعد خواجہ حارث نے رابرٹ ریڈلے سے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ ونڈوز وسٹا کے تین ایڈیشن جاری ہوئے تو رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ ہاں یہ درست ہے، خواجہ حارث نے سوال کیا کیا یہ بھی درست ہے کہ ونڈوز وسٹا کا پہلا باقاعدہ ایڈیشن 31جنوری 2007ء کو جاری ہوا؟ تو رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ ونڈوز وسٹا نے پہلا ایڈیشن 31 جنوری 2007ء ہی کو جاری کیا تھا، پھر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اگر میں کہوں کہ ونڈوز وسٹا بیٹا کا پری لانچ ایڈیشن 2005ء میں جاری ہوگیا تھا؟ تو رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ ونڈوز وسٹا بیٹا کا پہلا ایڈیشن 2005ء میں آئی ٹی ایکسپرٹس کے لئے جاری ہوا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا ونڈوز وسٹا بیٹا کے پری لانچ ایڈیشن کے ساتھ کیلبری فونٹ کی سہولت موجود تھی تو رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ ہاں یہ درست ہے کہ ونڈوز وسٹا بیٹا کا ورژن جو 2005ء میں آیا اس کے ساتھ کیلبری فونٹ کی سہولت موجود تھی لیکن یہ صرف آئی ٹی ایکسپرٹس اور آئی ٹی ڈویلپرز کو ٹیسٹ کرنے کے لئے فراہم کیا گیا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا یہ درست ہے کہ ونڈوز وسٹا بیٹا کا جو کیلبری فونٹ ہے وہ ہزاروں لوگ استعمال کررہے تھے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ ہزاروں لوگ استعمال کررہے تھے بلکہ محدود پیمانے پر آئی ٹی ماہرین کو لائسنس کے ساتھ ٹیسٹ کرنے کے لئے یہ ورژن فراہم کیا گیا تھا، جس پر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ آپ فونٹ سے متعلق نوٹس دیکھ کر بات کررہے ہیں؟ رابرٹ ریڈلے نے جواب دیا کہ ہا ں یہ بات درست ہے کہ میں نوٹس دیکھ کرا ٓپ کے سوالوں کا جواب دے رہا ہوں، خواجہ حارث نے سوال کیا آپ نے نوٹس کب تیار کیے، کیا یہ نوٹس آپ نے جرح کے لئے تیار کیے ہیں ؟ تو ریڈلے نے جواب دیا کہ ہاں یہ درست ہے کہ نوٹس میں نے جرح کیلئے تیار کیے ہیں اور کل اس سے متعلق میٹنگ ہوئی، اس حوالے سے بحث بھی ہوئی، خواجہ حارث نے سوال کیا میٹنگ کس حوالے سے ہوئی؟ جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال متعلقہ نہیں ہے میں یہاں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آیاہوں، جس پر طنز کرتے ہوئے خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تو پھر کل کی میٹنگ بھی عدالت کے حکم پر ہی ہوئی ہوگی، اس موقع پر عدالت نے مزید سماعت کل دن دو بجے تک ملتوی کردی، یعنی رابرٹ ریڈلے پر خواجہ حارث کی جرح ابھی ختم نہیں ہوئی، کل دوبارہ سے جرح کی جائے گی لیکن آج جرح کے دوران خواجہ حارث نے اہم سوالات اٹھائے اور یہ بھی کہا کہ رابرٹ ریڈلے کو ڈکٹیٹ کیا جارہا ہے، ڈکٹیشن دیا جارہا ہے اپنا بیان دینے کے لئے، ساتھ ہی انہوں نے ٹرسٹ ڈیڈ پر بھی سوالات اٹھائے، یہ وہ ٹرسٹ ڈیڈ تھی جس پر برطانوی وکیل راشد اسلم نے ہمارے پروگرام میں کہا تھا کہ اگر برطانوی عدالت میں اس ٹرسٹ ڈیڈ کو پیش کیا جائے تو اس کو قبول کیا جائے گا، کیونکہ بات اس تناظر میں ہورہی تھی کہ جس لاء فرم نے یہ ٹرسٹ ڈیڈ حسین نواز کو بنا کر دی اس لاء فرم نے یہ کہا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ ہم نے بنائی ہے اور یہ ٹرسٹ ڈیڈ اصلی ہے اور یہ ڈیل 2006ء میں ہی ہوئی تھی جیسا کہ شریف خاندان کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے تو پھر ہم نے یہ سوال کیا کہ اس پر کیلبری فونٹ کا سوال اٹھ رہا ہے اگر یہاں پر عدالت میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ اصلی نہیں ہے مگر لندن کی وہ لاء فرم جس نے یہ ٹرسٹ بنائی وہ کہہ رہی ہے کہ یہ اصلی ہے تو اگر لندن کی عدالت میں یہ معاملہ جائے تو پھر برطانوی عدالت اس بات کو مانے گی؟ تو بیرسٹر راشد کا کہنا تھا کہ یہ فرم کا فائنل ورڈ ہوگا اس کو عدالت کو ماننا پڑے گا کیونکہ یہ باقاعدہ دستخط شدہ دستاویز ہے، اس کی قانونی پوزیشن بہت مضبوط ہے تو اس پر کسی کورٹ آف لاء میں یا کسی ادارے میں سوال نہیں اٹھ سکتا، برطانیہ کے حوالے سے یہ بہت مضبوط دستاویز ہے، اب یہ دلچسپ معاملہ ہوگا کہ اگر یہ چیز برطانوی عدالتوں میں قابل قبول ہے تو پاکستان میں کیا فیصلہ آتا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ العزیزیہ اور فلیگ شپ کے ضمنی ریفرنس کی قبولیت کے حوالے سے بھی عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو آنے والے دنوں میں سنایا جائے گا، احتساب عدالت تیزی سے کارروائی کررہی ہے، جرح کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جارہا ہے لیکن کیا نیب بیس دن کے اندر تینوں ریفرنسز کی کارروائی مکمل کرلے گی یہ دیکھنا اہم ہوگا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ن لیگ کو ایک اور دھچکا لگا، عام انتخابات اور سینیٹ الیکشن سے پہلے اپوزیشن کے سیاسی داؤ پیچ کا مقابلہ کرتی ن لیگ کو قانونی جنگ میں مسلسل مشکلات کا سامنا ہے، الیکشن کمیشن کی طرف سے آج فیصلہ آیا کہ ن لیگ کی طرف سے سینیٹ الیکشن کیلئے دوبارہ نئے نام نہیں دیئے جاسکتے، جو نام جمع ہوگئے ہیں وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑسکتے ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے شیڈول کے مطابق اب کسی سیاسی جماعت کی جانب سے نئے ٹکٹ جاری نہیں کیے جاسکتے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس چار راستے تھے جس میں سینیٹ اور آئندہ سرگودھا اور گھوٹکی کے ضمنی انتخابات کا التواء، عدالتی حکم سے متاثرہ امیدواروں کو نئے پارٹی ٹکٹس لینے کیلئے وقت لینا، ن لیگ کی جانب سے نامزد کردہ امیدواروں کے بغیر سینیٹ کا الیکشن کروانا اور چوتھا راستہ یہ تھا کہ ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈرز کو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینا دیا جائے، الیکشن کمیشن کے مطابق جمہوری عمل جاری رکھنے کیلئے سینیٹ کے انتخابی شیڈول میں تبدیلی یا تاخیر کے بجائے ن لیگ کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا جبکہ چار مارچ کو سرگودھا اور پانچ مارچ کو گھوٹکی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کیلئے بھی ن لیگ کے امیدوار کوا زاد قرار دیدیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے ن لیگ کی سینیٹ الیکشن میں شرکت ممکن نہیں رہی مگر جو نام ن لیگ نے دیئے تھے وہ آزاد حیثیت میں ضرور الیکشن لڑیں گے، جب نامزد کردہ امیدوار آزاد حیثیت سے لڑیں گے تو کیا وہ ن لیگ کی پارٹی پالیسی کے پابند ہوں گے، سینیٹ میں آزاد حیثیت سے پہنچنے والے سینیٹرز ن لیگ کی پالیسی کے مطابق قانون سازی میں کیا اپنا کردار ادا کریں گے، اس حوالے سے ہارس ٹریڈنگ کے خدشات موجود ہیں جبکہ ان حالات میں ان پر پارٹی پالیسی اور قوانین کا اطلاق بھی نہیں ہوگا تو ایسی صورتحال میں وہ آزاد حیثیت میں کیسے پارٹی کے وفادار رہیں گے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نواز شریف کو لگتا ہے کہ ان کی مشکلات ابھی تک کم نہیں ہوئی ہیں، آج بھی ان کی طرف سے سخت الفاظ میں بات کی گئی، نواز شریف نے کہا کہ پہلے اختیار چھینا گیا، وزیراعظم کو ہٹایا گیا اور اب پارلیمنٹ کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے، پھر اپنا نام لے کر انہوں نے کہا کہ اب نام رہ گیا ہے نواز شریف کا وہ بھی چھین لیں، نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ یہ بھی غور ہورہا ہے کہ نواز شریف کو زندگی بھر کیلئے نااہل قرار دیدیا جائے، سپریم کورٹ کے فیصلے نواز شریف کے گرد گھوم رہے ہیں، اب فیصلہ آنے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ نواز شریف کا زندگی بھر نااہل قرار دینے کا خدشہ درست ہے یا نہیں ہے، دوسری طرف عمران خان پرامید ہیں کہ سپریم کورٹ سے تیسرا فیصلہ بھی نواز شریف کیخلاف آئے گا، آج جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ نواز شریف پارٹی صدر کیلئے بھی نااہل ہوگئے ہیں تو عمران خان نے کہا کہ ہیٹ ٹرک ہوگی، اس سے پہلے عمران خان واضح کرچکے ہیں کہ وہ نواز شریف کے جلسوں کے مقابلہ میں عدلیہ کی حمایت میں اسلام آباد میں بڑا جلسہ کریں گے اور بتائیں گے عوام کس کے ساتھ ہیں، یہ بیانیہ انتخابی مہم کا حصہ بنتا دکھائی دے رہا ہے، نواز شریف عدالتی فیصلوں پر تنقید کررہے ہیں جبکہ عمران خان عدالتی فیصلوں کی حمایت میں سڑکوں پر آنے کیلئے تیار ہیں، نواز شریف نے آج پارٹی قیادت سے اہم مشاورت بھی کی،مگر جب نواز شریف کو خود لگ رہا ہے اور نیب عدالتوں میں دائر مقدمات کے حوالے سے بھی شریف خاندان خدشات کا اظہار کررہا ہے تو پھر آگے کیا حکمت عملی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ملک میں جہاں عدالت کے کردار اور عدالتی فیصلوں پر پارٹیاں تقسیم ہیں، کہیں مایوسی تو کہیں خوشی ہے وہاں ایک شخص سابق ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کو بہت امید ہے کہ انہیں انصاف ملے گا ، پرویز مشرف نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ تین سال کے دوران پندرہ دفعہ عدالتوں کے سامنے پیش ہوئے انہیں عدل کی امید نہیں ملی مگر اب انہیں یقین ہے کہ صورتحال بدل گئی ہے اور انہیں انصاف کی امید پیدا ہوگئی ہے، اب ایسا کیا ہوا ہے جو انہیں انصاف ملنے کی امید ہوگئی ہے، کیا ایسی تبدیلی آئی کہ جو عدلیہ تین سال پہلے تھی وہی عدلیہ ہے مگر پرویز مشرف کی امیدیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار کو آزاد تصور کرنے کا اختیار نہیں ہے، سپریم کورٹ نے اٹھائیس جولائی کے بعد نااہل شخص کے تمام فیصلے کالعدم قرار دینے کا فیصلہ دیا ہے، الیکشن کمیشن کا ن لیگ کے امیدواروں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متصادم ہے۔