کیلبری فونٹ 2005 میں موجود،آئی ٹی ماہرین کے پاس تھا،برطانوی ماہر

February 23, 2018

اسلام آباد(نمائندہ جنگ/ خصوصی رپورٹ/جنگ نیوز)احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کیخلاف نیب ریفرنس پر سماعت کی،۔سابق وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر ویڈیو لنک سماعت کے دوران عدالت میں موجود رہے ۔ استغاثہ کے گواہ رابر ٹ ریڈلے کا ریڈیو لنک پر بیان قلمبند کر لیا گیا، گواہ سے 6گھنٹے زائد وقت جرح کی گئی۔ سماعت آج جمعہ کی دوپہر دو بجے تک ملتوی کردی گئی۔ گواہ نے بتایا کہ فرانزک ہینڈ رائٹنگ کاماہرہوں، ونڈو وسٹا بیٹا کاپہلا ایڈیشن 2005 میں آئی ٹی ایکسپرٹ کے لیے جاری ہوا تھا۔اس کیساتھ کیلبری فونٹ کی سہولت موجودتھی،یہ بات درست ہے کہ یہ صرف آئی ٹی ایکسپرٹ اور آئی ٹی ڈویلپر کو ٹیسٹ کرنے کے لیے فراہم کیا گیا تھا،اس وقت اس کاکمرشل استعمال نہیں تھا،کوئسٹ سالیسٹر نے 30 جون 2017 کو دو ڈیکلیریشن کا موازنہ کرنے کا کہا،نیلسن اور نیسکول کے دونوں ڈیکلیریشن پر تاریخوں کی تبدیلی کا موازنہ بھی کیا، دونوں ڈیکلیریشن میں دوسرا اور تیسرا صفحہ الگ سے بنایا گیا، یہ ناممکن تھا کہ بتایا جائے کہ کون سا صفحہ اصل ہے، دوسرے اور تیسرے صفحہ پر موجود تاریخوں میں تبدیلی کی گئی،2004 کو تبدیل کرکے 2006 بنایا گیا، چار کو چھ بنایا گیا، رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ دونوں صفحات میں سے دوسرے صفحہ پر دستخط بھی مختلف تھے، دستاویزات پر 2 کی بجائے 4 اسٹیپلر پن کے سوراخ تھے، ظاہری طور پر ایسا لگتاہےکہ کاغذات تبدیل کرنے کیلئے کارنر پیس کھولا گیا، میں نے دستاو یزا ت کے ٹائپنگ فونٹ کا بھی جائزہ لیا ،ڈیکلیریشن کی تیاری میں کیلبری فونٹ استعمال کیا گیا، کیلبری فونٹ پرائمری طور پر وسٹا ونڈو میں استعمال ہوا جو 31 جنوری 2007 تک کمرشل بنیادوں پر موجود نہیں تھا، ٹائپنگ کے دوران کیلبری فونٹ ڈیفالٹ ٹائپنگ فونٹ استعمال کیا گیا، کمپیوٹر 2007 میں ونڈو سیون میں کیلبری فونٹ آٹو میٹکلی استعمال کرتا تھا جب تک تبدیل نہ کیا جائے،یہ ڈیکلیریشن 31 جنوری 2007 پہلے سے کمرشل طور پر تیار نہیں ہوسکتے،رابرٹ ریڈلے پر جرح کرتے ہوئے خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ کے پاس بیان کی کاپی کیوں ہے،اس کا مطلب ہے گواہ کو ڈکٹیٹ کیا جا رہا ہے، گواہ نے کہا کہ نیب تفتیشی افسر کو نہیں بتایا کہ آف شور کمپنیوں کے ڈیکلریشن راجہ اختر کی لا ءفرم سے ملے ،سوال ہوا کہ پراسکیو ٹر ز سے کب ملاقات ہوئی ،راجہ اختر کے کہنے پر سردار مظفر اور امجد پرویز سے منگل کو ملاقات ہوئی،گواہ نے کہا کہ ملاقات میں شکیل نامی شخص بھی موجود تھا، مجھے لگا شاید یہ بھی نیب سے ہے ، نیب پراسکیوٹر کی مداخلت پر خواجہ حارث برہم ہو گئے، بولے یہ کس قسم کا آدمی ہے کبھی تھینک یو تھینک یو کہہ رہا ہے،میں عدالت چھوڑ دوں گا اس کو بٹھا دیں، جس پر نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ میری ذات پر سوال نہ کریں، خواجہ حارث بولے، کیا کال کے دوران قواعد و ضوابط طے ہوئے، نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ قواعد و ضوابط طے ہوئے، رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ پندرہ دسمبر کو نیب ٹیم نے میرا بیان قلمبند کیا خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ نے تفتیشی افسر کو بتایا آپ کی خدمات تیس جون کو حاصل کی گئیں، گواہ بولا میری خدمات انتیس جون یا اس کے آس پاس حاصل کی گئیں، خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ کے پاس تفتیشی افسر کو دیئے گئے بیان کی کاپی موجود ہے، گواہ بولا کاپی میرے پاس موجود ہے ، وہیں سے دیکھ کر تاریخ بتائی ہے، سوال ہوا، کیا آپ نے اپنی رائے سے پہلے تمام دستاویزات کو پڑھا تھا جواب ملا نہیں میں نے دستاویزات کو تفصیل کے ساتھ نہیں پڑھا،خواجہ حارث نے کہا کہ میری جاب ان کا فرانزک معائنہ کرنا تھا، سوال ہوا کیا آپ نے ان سے اصل دستاویزات مانگی تھیں،گواہ نے کہا کہ نہیں میں نے ان سے اصل دستاویزات سے متعلق سوال نہیں کیا، خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ نے رپورٹ میں ذکر کیا تھا کہ آپ کو اصل دستاویزات نہیں مہیا کی تھیں، گواہ بولا ،مجھے اصل دستاویزات کی ضرورت نہیں تھی نہ ہی میں نے اس کا ذکر اپنی فرانزک رپورٹ میں کیا، سوال کیا گیا ہے کہ تمام دستاویزات کا مواد ان کی اصلیت پر مبنی تھا، کیا آپ نے مواد کا تفصیلی جائزہ لیا، گواہ نے کہا کہ نہیں مجھے دستاویزات کے مواد میں دلچسپی نہیں تھی، میرا کام ان کا فرانزک آڈٹ کرنا تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ کیا رپورٹ کے ساتھ منسلک علیحدہ سے شیڈول کا ان سے مطالبہ کیا، گواہ نے کہا کہ میراٹاسک یہ تھا کہ جو دستاویزات مجھے جیسی موصول ہوئی انہیں اسی طرح واپس کرنا تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ نے ان سے منسلک شیڈول کا نہیں پوچھا نہ رپورٹ میں ذکر کیا، گواہ بولانہیں ،میں نے ان سے شیڈول کا مطالبہ نہیں کیا نہ میری جاب تھی، خواجہ حارث نے پوچھا لیکن جو دستاویزات آپ کے پاس ہیں اس وقت اس میں شیڈول ساتھ منسلک ہے۔ گواہ نے کہا کہ ان دستاویزات کے ساتھ شیڈول منسلک ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر یہ شیڈول ان کے ساتھ منسلک ہے تو آپ کا شیڈول ساتھ نہ ہونے کا بیان صحیح نہیں (غلط) ہے، جس پر گواہ نے کہا کہ اگر یہ شیڈول منسلک ہے تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ میرا بیان غلط ہے، خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ ونڈو وسٹا کے تین ایڈیشن جاری ہوئے، گواہ بولا یہ درست ہے تین ایڈیشن جاری ہوئے تھے، خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہ بات بھی درست ہے کہ ونڈو وسٹا کا پہلا باقاعدہ ایڈیشن 31 جنوری 2007 کو جاری ہوا، گواہ نے کہا کہ ونڈو وسٹا نے پہلا ایڈیشن 31 جنوری 2007 کو ہی جاری کیا تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ ونڈو وسٹا بیٹا کا پری لانچ ایڈیشن 2005 میں جاری ہو گیا تھا، جس پر گواہ نے کہا کہ ونڈو وسٹا بیٹا کا پہلا ایڈیشن 2005 میں آئی ٹی ایکسپرٹ کے لیے جاری ہوا تھا خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا ونڈو وسٹا بیٹا کے پری لانچ ایڈیشن کے ساتھ کیلبری فونٹ کی سہولت موجود تھی، جس پر گواہ نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ونڈو وسٹا بیٹا کے ساتھ کیلبری فونٹ کی سہولت موجود تھی لیکن یہ صرف آئی ٹی ایکسپرٹ اور آئی ٹی ڈویلپر کو ٹیسٹ کرنے کے لیے فراہم کیا گیا تھا،کمرشل استعمال نہیں تھا، سوال ہوا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ ونڈو وسٹا بیٹا کا کیلبری فونٹ ہزاروں لوگ استعمال کر رہے تھے گواہ نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ ہزاروں لوگ استعمال کر رہے تھے بلکہ محدود پیمانے پر آئی ٹی کے ماہرین لائسنس کے ساتھ ٹیسٹ کے لیے فراہم کیا گیا تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہ بات درست ہے آپ فونٹ کے حوالے سے نوٹس دیکھ کر جواب دے رہے ہیں، گواہ نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ میں نوٹس دیکھ کر آپ کے سوالوں کا جواب دے رہا ہوں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے نوٹس کب تیار کیے، کیا یہ نوٹس آپ نے جرح کے لیے تیار کیے ہیں، گواہ نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ نوٹس جرح کے لیے تیار کیے اور کل اس حوالے سے میٹنگ ہوئی اور اس حوالے سے بحث بھی ہوئی، خواجہ حارث نے پوچھا میٹنگ کس حوالے سے ہوئی، ڈپٹی پراسکیوٹر نے کہا کہ یہ سوال متعلقہ نہیں ہے میں یہاں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق آیا ہوں کل کی میٹنگ بھی پھر عدالت کے حکم پر ہی ہوئی ہو گی، اس پر عدالت میں قہقہے لگے۔ جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت جمعہ 23 فروری دن دو بجے تک ملتوی کردی۔ گواہ پر جرح جاری ہے جو آج مکمل کی جائے گی ،علاوہ ازیںاحتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے نیب ریفرنسز میں نواز شریف اور مریم نواز کی دن دو بجے عدالت میں حاضری سے عارضی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب کی جانب سے دائر دو ضمنی ریفرنسز پر نواز شریف کی وکیل کے اعتراضات پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جمعرات کو نوازشریف، مریم نوازاور کیپٹن صفدر صبح نو بجے احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی معاون وکیل عائشہ حامد نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس کے ضمنی ریفرنسز پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ضمنی ریفرنسز میں کوئی نئے اثاثے یا شواہد سامنے نہیں لائے گئے۔عائشہ حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ضمنی ریفرنسز میں صرف چند نئی ٹرانزیکشنز کو شامل کیا گیا اور ان میں 20 نئے گواہان کو شامل کر لیا گیا ہے تاہم ضمنی ریفرنسز کارروائی کو طول دینے کی کوشش ہے۔ عائشہ حامد نے کہاکہ مجھے دو گواہان سے جرح کی تیاری کے لیے 4 دن لگ گئے ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ ایک دن میں 17 گواہان کا بیان قلمبند کردیا جائے۔ نواز شریف کی وکیل نے موقف اپنایا کہ ہم کوئی نیب تو نہیں ہیں کہ ایک دن میں اتنے گواہان کے بیانات قلمبند کر لیں جبکہ ان کے حوالے سے ہمیں پہلے آگاہ بھی نہیں کیا گیا لہٰذا ان گواہان سے جرح کی تیاری کے لیے وقت درکار ہے۔ نیب پراسکیوٹر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ضمنی ریفرنسز میں نئے شواہد کو شامل کیا گیا اور ان میں ملزمان کی آمدنی کے ظاہر ذرائع سے متعلق دستاو یزا ت کو بھی حصہ بنایا گیا۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 6 ہفتوں میں عبوری ریفر نسز دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاہم یہی وجہ ہے کہ نیب کی جانب سے ضمنی ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔عائشہ حامد نے مزید کہا کہ ضمنی ریفرنس دائر کا وقت ختم ہوچکا ہے کیو نکہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیاچھ ماہ کاوقت پورا ہونے کو ہے،اگر ضمنی ریفرنس کو منظور کرنا ہے تو 6 ماہ کا وقت بڑھایا جائے، ضمنی ریفرنس میں 20 گواہان ہیں ہم نے تیاری بھی کرنی ہے، فاضل عدالت سے استدعا ہے کہ سپریم کورٹ کو 6 ماہ کا وقت بڑھانے سے متعلق استدعا کی جائے۔ احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر 2 ضمنی ریفرنسز پر نواز شریف کی وکیل عائشہ حامد کے اعتراضات پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت دوپہر ڈیڑھ بجے تک ملتوی کر دی۔ نواز شریف اور مریم نواز نے احتساب عدالت میں دوپہر ڈیڑھ بجے ہونے والی سماعت سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔عدالت نے استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی جبکہ کیپٹن صفدرکو ڈیڑھ بجے عدالت پیش ہونے کی ہدایت کردی۔