یہ سرکار کے نوکر ہیں؟

February 26, 2018

سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار دیتے ہوئے 28جولائی 2017ء کے بعد بطور صدر مسلم لیگ جتنے بھی فیصلےکئے انہیں کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد نواز شریف کا کہنا ہے کہ اب میرے پاس میرا نام رہ گیا ہے۔ وہ بھی چھین لیں۔اس فیصلے کے بعد سیاست میں ایک نئی ہلچل اور رسہ کشی شروع ہوگئی ہے ۔ میڈیا کا ایجنڈا ایسے سیاسی مسائل کو اُچھال کر اور اس حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے لیڈروں کے بیانات سے اپنی دکانداری چمکانا ہے۔ جس روز سپر یم کورٹ کا یہ فیصلہ آیا اُسی روز پنجاب حکومت کے ایک چہیتے بیوروکریٹ احد چیمہ کو ملک سے فرار ہونے کی کوشش پر گرفتار کر لیا گیا ۔ اخبارات کی رپورٹس کے مطابق سابق ڈی جی ایل ڈی اے کے خلاف آشیانہ ہائوسنگ اسکیم اور میٹرو بس کے حوالے سے کرپشن کے الزامات ہیں۔ نیب نے ان کا گیارہ روزہ ریمانڈ حاصل کر کے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ احد چیمہ نے جو ابتدائی بیان ریکارڈ کروایا اس میں کہا گیا کہ انہوں نے کوئی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا بلکہ جو احکامات اوپر سے انہیں ملتے رہے اُن پر عمل کرتا رہا ۔ اس بیوروکریٹ کی گرفتاری پر دوسرے بیوروکریٹس نے شدید رد عمل ظاہر کیا اور پنجاب کے وزیراعلیٰ نے گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ ناانصافی کے شکار افسران کیساتھ کھڑے ہیں ۔ گرفتاری کے بعد بیوروکریسی نے غیرا علانیہ ہڑتال کر کے دفتروں کو تالے لگا دیئے ۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی صدارت میں جی آو آر ون میں تقریباً 200 افسران کا چھ گھنٹے اجلاس ہوا ۔ جس میں گرفتاری کی سخت مذمت کی گئی اور اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ رہائی تک ایگزیکٹو اتھارٹی استعمال نہیں کر یں گے۔
اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال اور خصوصاً پنجاب میں بیوروکریسی میں بغاوت کی یہ صورتحال اتنی سنگین ہے کہ ملکی تاریخ میں اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک طرف ن لیگ کی صدارت کے ایشو پر شریف خاندان کے اندر سخت اختلافات ہیں ۔ ایک گروپ شہباز شریف کو صدر دیکھنا چاہتا ہے جبکہ مخصوص لوگ ان کے آگے آنے کو اپنی، نواز شریف اور مریم کی سیاسی موت سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف بیوروکریسی جو دو تین دھڑوں میں تقسیم چلی آرہی تھی اُس کے گروپ کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ زیادہ تر سینئرز بیوروکریٹس پر مشتمل ایک گروپ قطعی طور پر نہ تو احد چیمہ کی گرفتاری کے خلاف ہے اور نہ ہی اس طرح کام چھوڑ کر بغاوت کرنا چاہتا ہے ۔ دوسرا گروپ گرفتاری کے طریقہ کارسے متفق نہیں ۔ گو اس گروپ کے افسران کی اکثریت اچھی شہرت کی حامل ہے، مگر انہیں کنارے لگایا ہوا ہے۔ تیسرا گروپ پاکستان ایڈمنسٹریٹو این کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ تقریباً 70افسران پر مشتمل ہے جن کی اکثریت جونیئر ہے اور یہ سب اپنے گریڈ سے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ ان کو شریف خاندان کی پوری طرح سرپرستی حاصل ہے، یہی ہر چیز کے کرتا دھرتا ہیں۔ یہ گروپ آنیوالے دنوں میں خوشخال پاکستان پروگرام کی تحقیقات کی راہ میں حائل ہونے، سول سیکریٹریٹ سمیت اداروں میں ہڑتال اور تالہ بندی کر کے نیب کی کارکردگی کو متنازعہ بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ گو دوسری طرف گریڈ بائیس کے بعض افسران نے تالہ بندی کو غلط کہا اور دفاتر کھولنے کا حکم دیتے ہوئے انکی سرزنش کی مگر انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے ریاست کیخلاف بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ، وزیر قانون اور پنجاب کابینہ کے اجلاس میں گرفتاری کیخلا ف پاس کی گئی قرار داد اسکا منہ بولتا ثبوت ہے ،اب تو مال روڈ پر احد چیمہ کی رہائی کیلئے بینر لگوا دیئے گئے ہیں۔ آصف زرداری نے تو یہ کہہ دیا ہے کہ پنجاب بیوروکریسی کے ذریعے ریاست کیخلاف بغاوت کرائی جارہی ہے ۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ چونکہ احد چیمہ شہباز شریف کا فرنٹ مین ہے اسکے منہ کھولنے سے اُسے خطرہ ہے۔
گو ڈی ایم جی گروپ نے سول سیکریٹریٹ میں نہ صرف مکمل ہڑتال کی کوشش کی بلکہ تمام اضلاع کے ڈی ایم جی گروپ کو کام سے روک دیا لیکن سول سیکرٹریٹ میں صوبائی کیڈر کے افسروں کی طرف سے ان کا ساتھ نہ دینے پر صورتحال اور طرح سے ہوگئی ہے۔پی اے ایس کے افسران جو مبینہ کرپشن میں ملوث ہیں نےاپنے افسران کی مزید گرفتاریوں سے بچنے کیلئے پی ایم ایس ایسوسی ایشن سے رابطے کئے مگر انہوں نے اس بغاوت میں ساتھ دینے سے نہ صرف صاف انکار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ جب احد چیمہ ڈی جی ایل ڈی اے تھے تب ہمارے 73افراد کو گرفتار کیا گیا وہ یاد نہیں ۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ احتجاج کرنیوالے افسران اپنے ہی قانون اور ضابطے بھول گئے ہیں کہ تعزیرات پاکستان اور کنڈیکٹ رولز 1966 کے تحت ہڑتالی افسروں کو نہ صرف ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں بلکہ تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ ماضی میں ن لیگ حکومت میں پی ایم ایس افسران کو احتجاج اور تالہ بندی کرنے پر نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ 30کے قریب افسران کو نوکریوں سے برخاست کیا گیا وہ تو بعد میں عدالت سے ریلیف ملنے کے بعد بحال ہوگئے تھے۔
اس وقت کون کیا چاہتا ہے ، اصل گیم تو کوئی اور ہی لگتا ہے کیونکہ ویسے تو ہڑتالی بیوروکریسی نے احد چیمہ کی گرفتاری کو جواز بنا یا ہے لیکن ساتھ ہی 22 مطالبات پر مشتمل اپنا چارٹرڈ آف ڈیمانڈ بھی پنجاب حکومت کو پیش کر دیا ہے۔ اُسکی شاید یہ وجہ نظر آرہی ہے کہ ملک کی بگڑتی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ چونکہ اس وقت نااہل وزیراعظم جب یہ کہہ رہے ہیں کہ محب وطن شیخ مجیب کو باغی بنایا گیا اور اب مجھے اتنے زخم نہ دو کہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں ۔ میرے خلاف فیصلہ دینے والوں کو چھوڑیں گے نہیں، ہمیشہ آمروں کا ساتھ دیا گیا ۔ جب ایک ستون کو کوڑے مارے جا ئیں تو کیا دستور ی نظام برقرار رہے گا اور تو اور انہوں نے کھلے عام جلسوں میں یہ تک کہا کہ میں اس فیصلے نہیں مانتا اور نہ ہی عوام مانیں ۔ یہ سب کیا بغاوت نہیں ؟ اگر حکمراں پارٹی کا بڑا لیڈر قوم کو بغاوت پر اکسائے گا تو نقصان ریاست کا ہوگا اور ریاست کو بچانے کیلئے اگر کوئی ادارہ اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو پھر یہ بہت ہی خطرناک بات ہوگی۔ اس لئے اداروں کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے ۔ گو چیف جسٹس آف پاکستان یہ کہہ چکے ہیں کہ جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دونگا ۔ عوام ہماری ریڑھ کی ہڈ ی بنیں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں عوام کی بڑی اکثریت ریاست پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دے گی۔ مگر بیوروکریسی کے ذریعے جس طرح تنازعہ پنجاب میں کھڑا کر دیا گیا ہے ۔ اس کا فوری سوموٹو نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور فوری طور پر غیر جانبدار افسران کو تعینات کر کے اس سازش کو روکنا چاہئے اور ہڑتالیں کرنیوالے افسران کو فوری تبدیل اور برخاست کردینا چاہئے ورنہ ان لوگوں کے مذموم عزائم تو گریٹر پنجاب کے ہیں ۔ عوام کو بھی چاہئے کہ ریاست کے خلاف ہونیوالی سازشوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ سرکاری نوکروں کو یہ یاد دلائیں وہ صرف عوام اور ریاست کے نوکر ہیں !