گدھوں سے معذرت

March 07, 2018

جونہی پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات کے لئے شیڈول کا اعلان ہوا تو پشاور سے لے کر کراچی تک اور کوئٹہ سے لے کر لاہور تک منڈی لگ گئی ۔ تجوریوں کے منہ کھل گئے ۔ روایتی بیوپاری اور کھلاڑی میدان میں اترآئے ۔ آصف زرداری ، میاں نوازشریف ،عمران خان وغیرہ نے کھرب پتیوں کو ٹکٹ دینے شروع کردئیے جس سے واضح ہورہا تھاکہ اب کی بار سیاسی اسٹاک ایکسچینج میں خوب گرمی رہے گی۔مجھ تک خریدوفروخت کی جو خبریں پہنچیں وہ ناقابل یقین تھیں۔ چنانچہ الیکشن کمیشن اور قوم کو بروقت آگاہ کرنے کی خاطر مجھے اس موضوع پر اس وقت کالم لکھنا پڑا جو 6فروری 2018 کو روزنامہ جنگ میں ’’ڈنکی ٹریڈنگ‘‘ کے زیرعنوان شائع ہوا۔ اگرچہ پارلیمنٹ کے اندر ہونے والی خریدوفروخت اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کے لئے سیاست کی زبان میںہارس ٹریڈنگ کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن تب میرا خیال تھا کہ چونکہ گھوڑا ایک کارآمد اور وفاشعار جانور ہے اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں اسے ایک عزت دار اور سمجھدار جانور سمجھا جاتا ہے ، اس لئے اس عمل کو ہارس ٹریڈنگ کہنا میں نے گھوڑوں کی توہین سمجھا اور یوں اپنی فہم کے مطابق اس عمل کے لئے ڈنکی ٹریڈنگ یعنی گدھوں کی تجارت کا لفظ استعمال کیا ۔ تب سوچ یہ تھی کہ ہمارے معاشرے میں گدھا، چونکہ بے وقوفی ، بے وفائی اور بے ڈھنگے پن کی علامت سمجھا جاتا ہے ، اس لئے میں نے ووٹ اور ضمیر فروخت کرنے والوں کو گھوڑوں کی بجائے گدھوں سے تشبیہ دینا ضروری سمجھا، لیکن سینیٹ کے انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا اور جس بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ ہوا ، ا س نے مجھے گدھوں کے سامنے شرمندہ کیا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ووٹ اور ضمیر فروخت کرنے والے اراکین سے تشبیہ دے کر میں گدھوں کی توہین کا مرتکب ہوا ہوں اور اسی لئے میں آج دنیا بھر کے گدھوں سے معذرت کرنے پر مجبور ہوں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ گدھے بھی اس طرح نہیں بک سکتے جس طرح سینیٹ کے ان انتخابات میں ایم پی ایز اور ایم این ایز (خصوصا فاٹا کے بعض ایم این ایز)بکے ۔ گدھاگاڑی کے لئے گدھے کا انتخاب کرتے ہوئے بھی کوئی معیار ہوتا ہے لیکن تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کے اکثر ٹکٹوں کی الاٹمنٹ (سوائے چند ایک کے ) کے وقت پیسے کے سوا کسی معیار کو مدنظر نہیں رکھا۔ یقین نہ آئے تو چند نمونے ملاحظہ کیجئے ۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں تبدیلی کی علمبردار جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دو درجن سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی جن میں صوبائی وزراء بھی تھے، فروخت ہوئے ۔ حالانکہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی صورت میں ان کو اپنی حکومت کی طرف سے دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ رقم بھی مل رہی تھی لیکن دوسری پارٹی کی رقم چونکہ بہت زیادہ تھی ، اس لئے یہ بے شرم نوٹوں کے آگے ڈھیر ہوگئے۔ بعض ایسے ہیں جنہوںنے اپنی حکومت سے رقم لے کر بھی ووٹ فروخت کیا جبکہ بعض ایسے ہیں جنہوں نے دوسری پارٹی سے رقم لے کر بھی ووٹ اس کے امیدوار کو نہیں ڈالا۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کومسترد کرکے تبدیلی کے نام پر تحریک انصاف کو ووٹ ڈالے تھے اور اس لئے بعض ایسے لوگ بھی ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہوئے جو گدھوں کے اصطبل کا انتظام چلانے کے بھی اہل نہ تھے ۔ عوام کے مینڈیٹ کی رو سے پیپلز پارٹی کو اتنی کم سیٹیں ملی تھیں کہ ان کا ایک سینیٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا تھا لیکن ان ضمیر فروشوں کی وجہ سے اس کے دو سینیٹرز منتخب ہوئے اور تیسرا سینیٹر منتخب ہوتے ہوتے رہ گیا۔
ہر پارٹی نے نمائشی طور پر پارٹی کے بعض رہنمائوں اور نظریاتی لوگوں کو بھی ٹکٹ دئیے لیکن مسلم لیگ (ن)ہو ، پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی ، ہر ایک نے ایسے ایسے کھرب پتیوں کو سینیٹ کے ٹکٹ دئیے کہ جو صلاحیت اور پارٹی کے لئے خدمات کے لحاظ سے یونین کونسل کے ٹکٹ کے بھی حقدار نہیں ۔ یہ لوگ اس خیال سے امیدوار بنائے گئے کہ وہ اپنی جماعتوں کے ایم پی ایز بھی خرید سکیں ۔ بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) کی پوری پارٹی نے آزاد امیدواروں کو ووٹ دئیے ۔ سندھ میں ایم کیوایم جیسی جماعت کے درجنوں ایم پی ایز لوٹا ہو گئے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے چوہدری سرور نے اپنے استحقاق سے کئی ووٹ زیادہ حاصل کئے ۔ سوائے چند کے سب پارٹیوں کے لوگوں نے وفاداریاں بدلیں ۔اس بہتی گنگا میں قوم پرستوںنے بھی ہاتھ دھوئے اور مذہبی لوگوں نے بھی ، پی ٹی آئی والوں نے بھی اور مسلم لیگیوں نے بھی ۔ جمہوریت کی ٹھیکیدار پیپلز پارٹی کی تو خیر بات ہی کیا ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان ارب پتی نہ ہونے کی وجہ سے ہار گئے لیکن طلحہ محمود کھرب پتی ہونے کی وجہ سے سینیٹر منتخب ہوگئے ۔ فاٹا میں تو حسب روایت بے شرمی اور قوم فروشی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے گئے ۔ حسب روایت چھ ایم این ایز نے حکومت کے تعاون سے پول بنایا اور چھ بندوں نے چار سینیٹروں کا انتخاب کیا ۔ باقی پانچ ایم این ایز کا سرے سے ووٹ ہی ضائع ہوا ۔ اور تو اور حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے شہاب الدین خان سالارزئی نے بطور احتجاج انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔ بے شرمی اور قوم فروشی کی انتہادیکھ لیجئے کہ اس معاملے میں انضمام کے چیمپئن حاجی شاہ جی گل آفریدی اور انضمام کے مخالف بلال رحمان اور جی جی جمال ایک ساتھ رہ کر جوڑ توڑ کرتے رہے ۔ جس طرح یہ ایم این ایز کسی صورت قبائلی عوا م کے حقیقی نمائندے نہیں اسی طرح دولت کے زور پر منتخب ہونے والے سینیٹرز کسی صورت قبائلی عوام کے نمائندے اور ترجمان نہیں ہوسکتے ۔ اس طرح کے تماشے بھی ہوتے رہے کہ سابق سینیٹر نے دولت کے زور پر اپنے والد کو مسلم لیگ(ن) کے تعاون سے فاٹا سے سینیٹر بنوادیا جبکہ ان کے بھائی جو خیبر پختونخوا سے ایم پی اے ہیں، زرداری صا حب کی خدمت میں مگن رہے ۔
قصہ مختصر یہ کہ سینیٹ کے انتخابات کے نام پر عوام کی رائے اور ووٹ کی بدترین توہین ہوئی ۔ خیبرپختونخوا کے عوام نے جس نظریے کو ووٹ دیا تھا، سینیٹ کے انتخابات میں اس رائے کے برعکس ہوا اور ووٹ کا تقدس بری طرح پامال ہوا۔ سندھ میں ایک اور طریقے سے جبکہ بلوچستان میں ایک اور طریقے سے ووٹ کا تقدس پامال ہوا۔ فاٹا کے تو خیر نہ ایم این اے وہاں کے عوام کے نمائندے کہلانے کے مستحق ہیں اور نہ ان کے منتخب شدہ سینیٹرز ۔ لیڈران کرام نے عوامی رائے اور ووٹ کی توہین اس طریقے سے کی کہ اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر دولت دیکھ کر ٹکٹ دئیے اور پھر ایم پی ایز اور ایم این ایز کی ایک بڑی تعداد نے چمک کی بنیاد پر ووٹ دے کر عوامی رائے کی توہین کی۔ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو دن رات اس پارلیمنٹ کی بالادستی کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں اوراس پر لعنت بھیجنے والوںپر ہم لعنت بھیجنے میں دیر نہیں لگاتے ۔ جمہوریت پر یقین تقاضائے حب الوطنی ہے اور پارلیمنٹ کی عزت اور توقیر ہم پر فرض ہے لیکن بہر حال جن لوگوںنے نوٹ دیکھ کر ووٹ اور ضمیر کا سودا کیا ، ان پر لکھ لعنت ۔ ضمیر اور عوام کا مینڈیٹ فروخت کرنے والے گدھوں سے بھی بدتر ہیں لیکن جن لیڈروں اور امیدواروں نے نوٹ دے کر ووٹ خریدے ، یا نوٹ دیکھ کر یا لے کر ٹکٹ دئیے ، وہ گدھے تو کیا الوئوں سے بھی بدتر ہیں ۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور انسانیت کے دائرے میں رہے تو فرشتوں سے بھی افضل قرار پاتا ہے لیکن وہ قوم کا ، عوام کا اور اپنے مینڈیٹ کا سودا کرے اور انسانوںکو نوٹوں میں تولنے لگے تو الوئوں سے بھی بدتر ہے۔ یہی لوگ ہیں جو ہزار بار جمہوریت کا نام لیں لیکن وہ آئین اور جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔