فراہمی و نکاسی آب اسکیمیں - کروڑوں روپے خرد برد

March 11, 2018

گل حسن آریسر، عمر کوٹ

عمر کوٹ ضلع میںگزشتہ بارہ سال سے مضر صحت پانی فراہم کیا جارہا ہے جس سے ایک جانب انسانوں و حیوانوں کی صحت پر برے اثرات مرتب ہورہےہیں دوسری جانب زرعی اراضی بھی تباہ ہوکرناقابل کاشت بن گئی ہے۔ اس ضمن میں حکومتی سطح پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبہ سندھ میں فراہمی و نکاسیٔ آب کی تباہی کی بنیادی وجہ شہری اداروں کی نااہلی ہے۔

سندھ کے بڑے شہروں کے ڈرینج سسٹم کا نظام انتہائی خراب ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف محکمہ اری گیشن اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی غلط منصوبہ بندیوں اورناقص مٹیریل کے استعمال سےمذکورہ اسکیمیں تباہی و بربادی کا شکار ہوجاتی ہیں ،دوسری جانب سرکاری خزانے کا کروڑوں روپیہ ان اسکیموں کے نام پر خرد برد کیا جاتا ہے، جس پر ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کو فوری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

سیوریج لائنوں کی تعمیر و مرمت نہیں ہوتی جس وجہ سے گندِ آب نالوں سے ابل کر باہر آجاتا ہے ، شہراور قصبات کی گلیاں تالاب بن جاتی ہیں۔ جن میں مچھروں اور مکھیوں کی افزائش ہوتی ہے جو ملیریا، ڈینگی وائرس ، ہیضہ و امراض شکم کے علاوہ دیگر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

عمرکوٹ سب ڈویژن کی نہروںسے عوام کے پینے اورفصلوں کی کاشت کیلئے جو پانی فراہم کیاجاتا ہےوہ انتہائی زہریلا ہے ۔باوثوق ذرائع کے مطابق مذکورہ پانی اس ذخیرہ آب کا ہے جو 6 ماہ قبل سےجھیل میں جمع تھا،اور آلودہ ہوکر زہریلا ہوگیا ہے۔وہی پانی آب پاشی کے اہل کار نہروں میں پینے کیلئے اور فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے چھوڑتےہیں۔ دوسری طرف کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اس پانی سےفصلوں میںفنگس سمیت متعدد بیماریاں ہو جاتی ہیںجب کہززرعی اراضی سیم وتھورکا شکار ہوکر بنجر ہورہی ہے۔

عمرکوٹ تین لاکھ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے، جس کی واٹر سپلائی لائن،12کلومیٹردور تھرواہ سے عمرکوٹ تک پہنچتی ہے۔ راستے میںبااثرزمینداراپنی فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے فراہمی آب کی لائنیں توڑ کر پانی چوری کرتے ہیں ۔ ان کے خلاف بلدیاتی حکام کی جانب سے مقدمات بھی درج کئے گئے مگراب تک کوئی بھی کارروائی نہ ہوسکی اور پانی کی چوری اب بھی جاری ہے۔وہ پانی جو عمرکوٹ کی واٹرسپلائی تالابوں تک پہنچتا ہےاس قدر آلودہ ہوجاتا ہے کہ پینا تو بڑی بات ہے اس میں ہاتھ ڈالنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔11سال قبل حکومت سندھ نے عمرکوٹ کیلئے فلٹر پلانٹ منظور کیا جس پر42کروڑ روپے لاگت آئی تھی، لیکن اس مد میں مختص ہونے والی زیادہ تر رقم خورد برد کرلی گئی۔

اتنے طویل عرصے میں پلانٹ کی تنصیب کے لیے صرف بلڈنگ کی تعمیر ہوسکی ہے، جس میں انتہائی ناقص مٹیریل استعمال کیا گیاہے، جس کی وجہ سے کئی مرتبہ عمارت مخدوش ہونے کے باعث اس کی دیواروں اور چھتوں کی مرمت ہوچکی ہے۔ اتنی خطیر رقم کے اصراف کے باوجود ضلع عمرکوٹ کے عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کیا جاسکا اوروہ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔گزشتہ دنوں جوڈیشل واٹر کمیشن کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس امیرہانی مسلم نے عمرکوٹ کے تالابوں اور فلٹر پلانٹ کا دورہ کیا اورعمارت کی مخدوش حالت کے بارے میں پبلک ہیلتھانجینئرنگ کےذمہ دار افسران سے اس بارے میں معلومات کیں۔ انہوں نے جسٹس صاحب کو بتایا کہ فلٹر پلانٹ کے والو بند ہونے کی وجہ سے عمارت میں شگاف پڑے ہیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے فلٹر شدہ پانی میں کلورین کی مقدار کم ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے حکام سے کہا کہ فلٹر پلانٹ چلانا آپ کے فرائض میں شامل ہے، اس کام کا میونسپل کمیٹی یا بلدیاتی ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سےادا کریںاور شہریوں کوپینے کے لیے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق صاف و شفاف پانی فراہم کیا جائے جب کہ فصلوں کی آبیاری کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں ۔ اس سے قبل پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے حکام آلودہ اور مضر صحت پانی کی فراہمی پر دوسرے محکموں کو مؤرد الزام ٹھہراتے ہوئے عوام کو غلط تاثر دیتے رہے ہیں۔

جوڈیشل واٹر کمیشن کے سربراہ کے احکامات کے بعد ڈپٹی کمشنر عمرکوٹ، ندیم الرحمان میمن کی صدارت میں واٹر کمیشن کا ایک اجلاسہوا جس میںپبلک ہیلتھانجینئرنگکے انجینئر عارف شاہ نے اعتراف کیا کہ عمرکوٹ شہر کو سپلائی کیا جانے والا 80 فیصد پانی شہر کی ڈرینج سسٹم سے گزرتا ہے بعد میںاسے عمرکوٹ کے شہری پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیےتین ارب روپے کی لاگت سے ٹریٹمنٹ پلان لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنرنے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ عمرکوٹ شہرمیں گندے پانی کی نکاسی اور کچرا پھینکنے کیلئے محکمہ ریونیو کی جانب سے ایک سو ایکڑ زمین پر لینڈ فل سائٹ بنئی گئی ہے، تاکہ اس میںسیوریج کاپانی اور کچرا ڈالا جاسکے۔

انہوں نےضلع کونسل عمرکوٹ کے سی ایم او، امتیاز علی ہالیپوٹو کو ہدایت کی کہ وہ ضلع کونسل عمرکوٹ کی واٹر سپلائی کی نو تعمیرشدہ واٹر سپلائی اسکیموں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکےجوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ میں شامل کریں تاکہ شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔