ایک انتہائی گھٹیاحرکت

March 13, 2018

گزشتہ دنوں لاہور کی جامعہ نعیمیہ میں تین افراد نے جو غلیظ حرکت کی اس کی مذمت ہر طرف سے ہورہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف جامعہ میں بطور مہمان خصوصی بلائے گئے تھے۔ وہ جب خطاب کے لئے اٹھے تو مختلف کارنرز میں بیٹھے دو ا فراد نے ان پر جوتے پھینکے۔ ان میں سے سرخ ٹوپی والا اسٹیج کے بالکل قریب تھا۔ اس کا جوتا میاں صاحب کے کاندھےپر لگا، جس کے فوراً بعد جامعہ کے طلبہ اور سیکورٹی والوں نے ان دونوں افراد کو دبوچ لیا اور انہیں اپنی حراست میں تھانے لے گئے۔ اس سے قبل مسلم لیگ ہی کے دو رہنمائوں میں سے احسن اقبال پر جوتا اور خواجہ آصف کے چہرے پر سیاسی پھینکے جانے کے افسوسناک واقعات رونما ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود سیکورٹی عملہ اتنا چوکس نہیں تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کی پبلک میں آمد پر کسی ناخوشگوار صورتحال کا سدباب کرسکتا۔
یہ واقعہ اتنا سیدھا سادہ نہیں ہے کہ اسے محض ایک گھٹیا حرکت قرار دے کر اس کی کڑیاں مستقبل کے خدشات کے ساتھ نہ ملائی جائیں۔ متذکرہ تینوں بے ہودہ حرکات کا نشانہ ایک ہی جماعت کے رہنمائوں کو اس وقت بنایا گیا جب 2018کے الیکشن سر پر کھڑے ہیں ا ور ہر طرح کے ہتھکنڈوں کے باوجود مسلم لیگ کی کامیابی یقینی نظر آتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس سے کسی جماعت کے انتخابی نتائج متاثر ہوں گے یا نہیں، مجھے تو فکر پاکستان کی ہے جو ہماری جند جان ہے اور جس کے بغیر ہم سب زیرو ہیں، متذکرہ حرکت سے ملک اس صورت میں خانہ جنگی کی طرف جاسکتا ہے جب اس صورتحال کا سامنا دوسری جماعت کے رہنمائوں کو بھی کرنا پڑا، پھر یہ سلسلہ یہاں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ سب جماعتوں کے حامی اور مخالف بھی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوجائیں گے، پھر گلی گلی اور محلے محلے میں بھی نفرت کا یہ لاوا ابل پڑے گا۔ اس میں خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ اس فساد کی بنیاد مذہب کو بنایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت نے اپنی فوج کی مدد سے مذہب کے نام پر کی جانے والی ہولناک دہشت گردی پر بڑی مشکل سے قابو پایا ہے۔ اب ہم اس جن کو دوبارہ بوتل سے نکال رہے ہیں۔ جامعہ نعیمیہ کے بانی حضرت مفتی محمد حسین نعیمیؒ تمام مذہبی حلقوں میں اپنے اپنے مسلک کے باوجود بے حد احترام کی نظر وں سے دیکھے جاتے تھے۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے لئے ان کا وجود ان کے ناپاک عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھا چنانچہ انہیں شہید کردیا گیا۔ ان کے صاحبزادے علامہ راغب نعیمی بھی اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے مدرسے کو جنونیوں کی آماجگاہ بنانے کی بجائے سلامتی والے ا سلام کا پیروکار بنانے کی پالیسی پر گامزن رہے، چنانچہ جن دو افراد نے نواز شریف پر جوتا پھینکا وہ اس دینی درس گاہ کے خلاف اس ’’پریشانی‘‘ کا بھی نتیجہ تھا کہ یہ عشق رسولؐ کےپاکیزہ ترین جذبے کو اس کے صحیح تناظر میں دیکھتے ہوئے ان کی طرح اسے نفرتوں کی تجارت کا وسیلہ کیوں نہیں بناتے، یہ ہمارے مدد گار کیوں نہیں بنتے اور سیاست کو مذہب کا’’تڑکا‘‘ کیوں نہیں لگاتے؟شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ راغب نعیمی نے اس شرمناک واقعہ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسے عام واقعہ نہیں بلکہ سازش قرار دیا اور اس کے ڈانڈے تلاش کرنے کے بعد مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
جامعہ نعیمیہ سے شریف خاندان کا تعلق بہت پرانا ہے، شریف خاندان بریلوی مکتب فکر سے وابستہ ہے مگر دوسرے مسالک کے لئے بھی دل میں احترام کا جذبہ رکھتا ہے۔ میاں محمد شریف مرحوم و مغفور کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف جامعہ نعیمیہ کے اس معتدل رویے کے معترف ہیں کہ یہ’’دم درود‘‘ والے لوگ ہیں، ’’بم بارود‘‘ والے نہیں۔ یہ مہذب زبان میں اپنے فقہی اور مسلکی اختلافات کا اظہار کرتے ہیں، مخالفین کو گندی گالیاں نہیں دیتے،یہی وجہ ہے کہ نواز شریف خواہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، جامعہ کے دینی اجتماعات میں شرکت کے لئے وقت ضرور نکالتے رہے ہیں، چنانچہ یہ بھی ممکن ہے کہ گالی گلوچ کرنے والوں نے نواز شریف کی آڑ میں اس مدرسے کو اس کے مسلک کے لوگوں سے دور کرنے کے لئے یہ کارروائی کی ہو۔یہ طبقہ چاہتا ہو کہ دوسرے بہت سے بریلوی مکاتب فکر کے حامل دینی مدرسوں کی طرح اس مدرسے سے بھی اختلاف رائے کے لئے مہذب لب و لہجہ اور رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے گالی گلوچ والے تنہا رہ گئے ہیں، چنانچہ ان کے معزز مہمان کی توہین کرکے اور اس سانحہ کی میڈیا میں بازگشت سے عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ جامعہ نعیمیہ ان کے عشق رسولؐ کے ’’فارمولے‘‘ پر پورا نہیں اترتا۔ مجھے یقین ہے کہ بریلوی مکتب فکر کے علماء اور پیروکار حضورؐ کے اسوہ حسنہ کے پیروکار بننے کی تلقین کرتے رہیں گے اور یوں وہ طبقہ ہمیشہ تنہائی ہی کا شکار رہے گا جو باقی سب کو بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔
آخر میں مسلم لیگی قیادت سے ایک درخواست ، جو گھٹیا ترین حرکت کی گئی ہے اس کا مقصد مسلم لیگ سے وابستہ عوام کو اشتعال دلانا تھا تاکہ وہ بھی اپنے مخالفوں کے ساتھ اس طرح کی حرکات کریں،چنانچہ اس وقت مسلم لیگیوں میں اپنے لیڈر کی توہین پر سخت اشتعال پایا جاتا ہے، قیادت سے درخواست ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو سختی سے تلقین کرے کہ وہ پرامن رہیں، ورنہ سازش کرنے والوں کا مقصد پورا ہوجائے گا، وہ لوگ ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، اللہ ان لوگوں کو برباد کرے جو میرے اور آپ کے پاکستان کو قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان نہیں ،گالی گلوچ کرنے والوں اور یوں مذہب کا نام ا ستعمال کرکے پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کے خواہاں ہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998