اقتباسات

March 14, 2018


پیکرِ محبت

” ۴ جنوری ۱۹۴۴ کی صبح کے وقت ہماراجہاز آہستہ آہستہ بمبئی کی گودی میں داخل ہوا ۔میں ایک مختصر سی نیند سے جاگا تو پورٹ ہول سے خشکی نظر آئی ایک بے تابی کے عالم میں کپڑے پہنے ‘عرشے پر پہنچا ارض ہند پر نظر پڑی تو آنکھوں سے وفور ِمسرت سے آنسو نکل پڑے اور جب خاک وطن پر پاؤں رکھا تو خدا جانے کتنی دیریہ ا حسا س ہوتا رہا کہ پاؤں کے بجائے جبین کیوں نہ رکھ دی ۔

بمبئی میں ہمیں ٹرانزٹ کیمپ میں ٹھہرایا گیا، یہ وہی کیمپ تھا ،جہاں ڈھائی سال پہلے محض ٹائپ کی غلطی کی وجہ سے خدا تعالیٰ تک جانے سے روک دیا تھا اور ہمارا سمندر پار کا سفر ٹل نہ سکا تھا۔

بہر حال اب خوش تھے کہ نہ صرف جنگ سے بچ کر آگئے تھے ،بلکہ کسی قسم کا سچا لہو لگا کر انگریزی غازی بھی بن چکے تھے اور طبیعت میں ایک قسم کی خان بہادری محسوس کررہے تھے ،چنانچہ کیمپ کے دفتر میں داخل ہوئے تو اندر اس بے تکلفی سے قدم رکھا گویا صاحب خانہ ہم ہی ہیں اور انگریز کمانڈنٹ نے بھی ہمیں خوش آمدید کہا اور تپاک سے گویا ہوا کہ ملکہ معظم نے ہدایات بھیجی ہیں ملاقات کے دوران ہمیں ٹرینینگ سنٹر سیالکوٹ میں تقرر کا حکم نامہ دیا لیکن وہاں جانے سے پہلے ایک ماہ کی رخصت کا مژدہ بھی سنایا اور اسی شب فرنٹئیر میل سے ہماری نشست کا انتظام بھی کر دیا ۔​

دوسرے روز لاہور پہنچے ،ہماری منزل تو آگے چکوال تھی، جہاں سے اتر کر اپنے گاؤں بالکسر جانا تھا لیکن گاڑی لاہور کے اسٹیشن پر رکی تو میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا، ہمیں وہی کالج کے دنوں کے مانوس در و دیوار نظر آئے،وہی رس بھری پنجابی آوازیں کانوں میں پڑیں اور وہی بھاگ بھری قمیصیں اور شلواریں دکھائی دیں۔

ایک غیبی طاقت نے ہمیں لاہور اترنے پر مجبور کر دیا اسٹیشن سے نکل کر پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ لاہور کے گلی کوچوں میں پیدل چلنا بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے لاہور میں ٹھہرے، ٹھہرے کیا ‘ اپنے آپ کو لاہور کے سپرد کردیا اور یوں محسوس ہوا جیسے ہوائے لاہور ہماری سہ سالہ اجنبیت کو دھو کر ہماری باضابطہ تطہیر کررہی ہے ۔

دوسرے روز گھر پہنچے تو چھوٹوں کو بڑا پایا اور بڑوں کو اور بڑا لیکن گاؤں کی بڑی خبر یہ نہ تھی کہ ہم نے انہیں کیسا پایا بلکہ یہ کہ ہم خود کیسے پائے گئے ۔خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے، کتنا دبلا پتلا تھا ‘اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے،صاحب بن گیا ہے،سر گٹ بھی پیتا ہے ،مسکوٹ میں کھاناکھاتا ہے۔ گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنےلگے ۔

ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوںگے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی ۔چھاتی دکھنے لگی لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا ۔مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے ‘”بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو نا ؟”​

میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکر محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا ؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا ” جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی ۔ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے ؟ ” ​

(کرنل محمد خان کی کتاب ” بجنگ آمد ” سے اقتباس)

شکر گزاری

بندے کو اپنے کسی عمل پر پھولنا نہیں چاہئیے۔ اس لیے کہ وہ اس کے رب کی طرف سے ہوتا ہے،توفیق بھی وہ ہی دیتا ہے، قوتِ عمل بھی اس کی دی ہوئی ہے، راستہ بھی وہ ہی بناتا ہے اور بندے کے اندر عمل کی تلقین بھی وہ ہی ڈالتا ہے، بندے کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اچھا عمل کر کے خود پر فخر کر لیا تو سب کچھ تباہ کر لیا۔دوسری بات یہ کہ اللہ کے لئے کرو تو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ جتنی بھاری قیمت ادا کرو گے عمل اُتنا ہی مقبول ہو گا، مگر قیمت ادا کرنے کے بعد کے آداب بھی ہیں۔ قیمت ادا کر کے پچھتائے، افسوس کیا، غم کیا تو سب کچھ ختم،جتنی بڑی قیمت ادا کرو اُتنی ہی خندہ پیشانی سے رہو۔ اللہ کے عام بندوں میں اور خاص بندوں میں یہ ہی فرق ہے۔۔۔۔!!!

(علیم الحق حقی کی کتاب ’’عشق کا شین‘‘ سے اقتباس)