سر رہ گزر

March 15, 2018

کلمہ ٔ خیر
اگرچہ کلمے تو یہ دونوںاچھے ہیں مگر مجھے کلمہ ٔ خیر اور کلمہ ٔ شہادت سے اس وقت بہت ڈر لگتا ہے جب محفل میں کوئی وڈ وڈیرا نہایت متانت سے ہلکی آواز میں کہتا ہے، ’’ کلمہ ٔ خیر کہو‘‘ اور جب اچانک ہوا کے دوش پر کہیں سے یہ صدا آتی ہے ’’کلمہ ٔ شہادت‘‘ اورمیری آنکھوںمیں گویا مہد سے لحد تک تمام مناظر گھومنے لگتے ہیں۔ جانا کہیں سے بھی ہو، اچھا نہیں لگتا کیونکہ جنت جانے کے لئے بھی مرنا شرط ہے۔ موت کے بہت سےدل آویز فلسفے جانتاہوں کہ یہ جانانہیں، ایک اور دنیا کا سیرسپاٹا ہے لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔ ہم شاید کسی خوف کے تحت چاہتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں غربت، محرومی اصل سبب ہے لیکن انسان اور بالخصوص ہمارے ہاں کا انسان بڑا ہو یا چھوٹا، ڈر کا شکارہے اور کتنا ہی سورما ہو کسی بھی مقام آہ و فغاں پر ’’یرک‘‘جاتا ہے۔ میں نے کسی لطیفے کو اتنا وسیع معانی رکھنے والا نہیںپایا جتنا یہ لطیفہ کہ خان صاحب کو بھوک لگی۔ خربوے خریدے۔ نہر کنارے کھانے بیٹھ گیا۔ میٹھے کھاتاگیا پھیکے پلید تھوک کر پھینکتا گیا اوراپنے کام پر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر بھوک نے ستایا۔ وہیں گیا جہاں خربوزے کھائے تھے اور ایک ایک کرکے یہ کہہ کر تمام خربوزے کھا گیا کہ اس پر نہیں تھوکا تھا۔ اس لئے کسی بارے برا نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اسے کسی وقت بھی اچھا کہنا پڑ سکتا ہے۔ اس لطیفے کا دامن اتنا وسیع ہے کہ سیاست سے حکومت اور حکومت سے سیاست تک الغرض زندگی کے ہر شعبے میں کلمہ ٔ بد سے کلمہ ٔ خیر کی طرف اور کلمہ ٔ خیر سے کلمہ ٔ شر کی طرف آنے میںدیر نہیں لگتی۔ بہرحال یہ دنیا کچھ بھی کہہ لیں، جنت سے کم نہیں۔ ایک حدیث مبارکہ ہے ’’ان الدنیا حلوۃ خضرۃ‘‘ (یہ دنیا سرسبز و شیریں ہے) بہرحال نگوڑی بہت ہی دلکش ہے۔ اس سے جتنا بھی لڑ لو، جب ذرا سا سنگارکرکے سامنے آتی تو دن بھی شب زفاف بن جاتا ہے۔ دنیا کو جو لوگ عارضی، مکروہ اور برا کہتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اس سے جانے کو کسی کا دل نہیں کرتا۔ خدا نہ کرے کوئی لائٹ ویٹ بیماری بھی اٹیک کرے تو دل اچھے ڈاکٹر، اچھے اسپتال ڈھونڈتا ہے۔
٭٭٭٭٭
شکر ہے!
ہم زبانی کلامی بہت شکر کرتے ہیں لیکن عملاً بہت ناشکرے ہیںاور اب تو جس سے پوچھو کیا حال ہے؟ وہ کہتا ہے ’’شکر ہے‘‘ اور اس طرح سے کہتا ہے کہ باڈی لینگوئج بول اٹھتی ہے، بس شکر ہی ہے۔ یعنی اب کیا کریں مجبوراً شکر تو ادا کرنا ہوگا۔ ہم اپنی دیگر عبادات کو بھی چیک کرلیں کہ ان میںبھی کہیںباڈی شامل اور دل شامل نہ ہو۔ بات جو دل سے نکلتی ہے، اثررکھتی ہے۔ یہ بھی بڑا وسیع المعانی فارمولا ہے اورشکر بھی دل سے نکلے توبارگاہ ایزدی میں شکرگزاربندہ ٹھہرتاہے۔ ہمیں وہ لوگ بھی زہر لگتے ہیں جو اشاروں کنایوں کی اصل تعریف نہیںجانتے۔ انہوں نےصنائع بدائع نہیں پڑھے ہوتے اور کسی کی گفتگو سے اشارے کنائے کشیدکرکے چپت رسید ہوجاتے ہیں، جسے ہم پیار محبت کہتے ہیں اور یہ بھی ہمارا کامیابی سے پھینکا گیا جال ہوتا ہے اور پنچھی عمر بھر پھڑپھڑاتا رہتا ہے۔ ایک بیماری جو اب فیشن کادرجہ حاصل کرچکی ہے اور اس کا پرہیزی شیڈول اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے، شوگر ہے۔ ویسے بھی یہ مرض رزق کی فراوانی سے زیادہ نشوو نما پاتا ہے کیونکہ جن لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی ارزانی لگے وہ خدانخواستہ زیادہ اس مرض میںمبتلا ہوتا ہے۔ شوگر کوئی مرض نہیں اگرزندگی میںمحنت کشی شامل ہو اور اب تو یہ مرض اتنا عام ہے کہ جب کوئی کہتا ہے شکر ہے تو یوںسنائی دیتا ہے کہ کہہ رہا ہے،شوگرہے۔ دو الفاظ ہم وزن بھی ہیں ا ور اب تو ہم معنیٰ بھی اگر ہم صدق دل سے شکر ادا کرتے توقناعت کی حد پار تو نہ کرتے۔ میں نے مزدوروں کے کلمۂ شکر میں صداقت کی خوشبو پائی ورنہ بلحاظ شکر اکثر صادق و امین نہیں نااہل شکر گزاروں کو اللہ خوب جانتا ہے کیونکہ بقول طارق عزیز ،اللہ کا یہ قول ہمیں بہت عزیز ہے کہ ’’جو دلوں کے بھید جانتا ہے‘‘ ایک شخص تنگ دست کہ تونگر، دونوں صورتوں میں جب دل سے شکر ادا کرے بالخصوص آزمائش میں حالت ِشکر میں رہے تویہ اصل شکرہےورنہ ’’شوگر‘‘ہے۔
٭٭٭٭٭
اپنے مرنے پہ رونا آیا
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جعلی کو اصلی ماننے کو جی چاہتا ہے۔ کل کی بات ہے ٹی وی پر بار بار خبروں میں اس دوشیزہ کو دیکھا جو کسی طرح بھی جعلی لیڈی ڈاکٹر نہیں لگتی تھی۔ دل نے آواز دی کیا اب یہ حسینہ بھی جیل جائے گی؟؎
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
جیل میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوں گئیں
جب یہ دنیا ہی دونمبر ہے، فانی ہے، ناپائیدارہے، بیوفا ہے اور اسکا ثبوت دیکھنا ہو تو میانی صاحب جا کر کسی پوش سی قبر پر بیٹھ کر غور کریں، یقین آجائے گا۔ جب سب جعلی توپھراس خوبرو نوعمر جعلی لیڈی ڈاکٹر کو اصلی ماننے میںکیا حرج ہے۔ وہ بھی تو جعلی ہوتی ہے جس بارے شاعر نے کہا ہے؎
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
اگلا مصرع نہ ہی یاد کریں کہ پہلے میں ہی کام ہو گیا۔ ہمارا عندیہ یہ ہے کہ سب مایاہے، سب جعلی ہے۔ غالبؔ کا بھی یہی عقیدہ تھا ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ایک شعر ہے کسی کا ہم نے پڑا پایا اپنے مطلب کا بنا لیا؎
ہم کو تو حسینوں کے مرنے پر رونا آیا
رونے والے تمہیں کس بات پر رونا آیا
بس دعا کریں کہ کسی جوانمرگ خوبرو کا چہرہ نہ دیکھنا پڑے۔ کئی دفعہ یہ بھی ہوا کہ سوچ پر موت حاوی ہوگئی اور یہ منظر دیکھا کہ (خدا نہ کرے) میں فوت ہوچکا ہوں۔ خواتین بین ڈال رہی ہیں۔ ہائے کتنا اچھا آدمی تھا۔ جس دروازے پر دستک ہوتی ،نکل یہ آتا اور جب یہ سوچا کہ میرے بچے، میری بیوی میری ایک ایک بات کو روئیں گے تو سچ جانئے مجھے خود اپنے مرنے پہ رونا آیا۔
٭٭٭٭٭
ٹرمپ پھر ٹرپ کرگئے
O۔ قدوس بزنجو:آئندہ وزیراعظم بھی بلوچستان سے لانے کی کوشش کریں گے۔
ابھی تو سینیٹ کی چیئرمینی پرگزارہ کریں البتہ کوشش کرنےمیں کوئی حرج نہیں کیونکہ وزیراعظم کا کوئی صوبہ نہیں ہوتا۔
O۔ ٹرمپ نے وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کو برطرف کردیا۔
ٹرمپ کا دماغ جب بھی ٹرپ کرجاتا ہے کوئی تبدیلی امریکہ میں ضرور آتی ہے۔ اگر رفتار بڑھ گئی تو امریکہ، افریقہ بھی بن سکتا ہے۔
O۔ سپریم کورٹ بدکلامی پر سوموٹو ایکشن لے کیونکہ بچوں پر بڑوںکے اچھا نہ بولنے کے برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ اگر من حیث القوم بداخلاق ہوگئے تو ہمیں کوئی قرضہ بھی نہیںدے گا۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998