خواتین اپنی ڈگریاں کچن میں نہ جلائیں

March 16, 2018

لیاقت علی جتوئی

تعلیم اور شعور میں اضافے کے ساتھ آج کی خواتین اپنے حقوق سے بہتر طور پر آگاہ ہورہی ہیں۔ سماجی، معاشرتی ترقی اور اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں۔

ایک کہاوت ہے کہ ایک لڑکے کو دی جانے والی تعلیم اسی ایک فرد تک محدود رہتی ہے، جب کہ لڑکی کو جو تعلیم دی جاتی ہے، وہ دراصل ایک خاندان کو تعلیم دینے کے برابر ہے۔ پاکستان میں کم از کم بڑے شہروں اور دیہی مراکز کی حد تک خواتین کو تعلیم دینے کا رجحان جڑ پکڑتا جارہا ہے۔

جہاں والدین اپنے لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کو بھی بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتے ہوئے، انھیں اسکول اور کالج بھیجنے لگے ہیں۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد اکثر لڑکیاں شادی کرکے خاتون خانہ بننے کو ترجیح دیتی ہیں یا کئی کیسز میں انھیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (UNDP) نے پاکستان میں جنسی فرق پر کام کیا ہے۔ادارے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میںاکثرخواتین کے کردار کو گھر کی چاردیواری کے اندر تک محدود ہے۔

گھر داری، بچے اور گھر کو ترتیب میں رکھناخواتین کی ذمہ داری ہے۔ دیہی معیشت میں عوت کا کردار چار دیواری سے باہر کاشت کاری میں بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے، تاہم اکثریتی خواتین اپنی خاندانی زمینوں پر کام کرتی ہیں،جہاں انھیں کوئی اجرت نہیں ملتی، اور فیملی بلڈنگ اورنیشن بلڈنگ میں ان کا کردار سامنے نہیں آپاتا۔ یہ سماجی رویہ خواتین کے لیے تعلیم اور پھر روزگار کے حصول میںرکاوٹ بن جاتا ہے۔

ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ، پاکستان میں 45فی صد خواتین خواندہ ہیں۔ان میں سے 28فی صد لڑکیاں اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ تاہم پاکستان کی لیبر فورس میں ان کا کردار بہت محدود ہے۔

تقریباً 50فی صد امریکی خواتین کے مقابلے میں پاکستان میں صرف 22فی صدسے کچھ زائد خواتین کام پر جاتی ہیں۔ 1991-92 میں پاکستان کی 16 فی صد خواتین کام پر جاتی تھیں، اور آج ڈھائی دہائیوں کے بعد یہ شرح 22 فی صد تک ہی پہنچ سکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 78فی صد خواتین گھروں میں رہتی ہیں۔

جدید تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان معاشروں نے ہی ترقی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں، جہاں مردوں کے ساتھ ان کی خواتین زندگی کے ہر شعبے میں کندھے سے کندھا ملا کر چلتی ہیں اور خود کو اور اپنی فیملی کو سپورٹ کرتی ہیں۔

فیملی یا کیریئر؟

یقیناً خواتین کے لیے اچھی ماں اور ورکنگ وومن کا Dualکردار بیک وقت ادا کرنا اور دونوں میں کامیاب رہنا ایک مشکل طلب کام ہے، جس کے لیے ان کے لائف پارٹنرز کو انھیں مکمل طور پر سپورٹ کرنا چاہیے۔

میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہوتے ہیں، اور زندگی کی گاڑی آرام اور سکون سے اسی وقت چل پائے گی، جب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلیں گے۔

مرد کے مقابلے میں خاندان کو چلانے اور معاشرتی کردار ادا کرنے میں عورت کو کئی کردار ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ماں، ٹیچر، بہن، بیوی، کوچ،باورچی، ڈرائیور، ملازمت پیشہ فرد وغیرہ وغیرہ۔

ان تمام کرداروں کے ساتھ انصاف کرنے اور توازن پیدا کرنے کے لیے عورت کو مرد کے مقابلے میں کہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ عورت کا بیک وقت یہ سب کردار اور ذمہ داریاں ادا کرناقابل تعریف ہے۔

اس کے علاوہ، یہ بات بھی بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ ہر چند کہ کچھ خاندانوںمیں عورت کا نوکری کرنا ایک چوائس ہوتا ہے، آج کے دور میں اکثرخاندانوں میں عورت کا نوکری کرنا ضرورت بن چکا ہے۔

خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں، جہاں تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے شعبوں میں ریاست کا کردار محدود ہوتے ہوتے بہت سکڑ گیا ہے، یہاں عورت کے لیے نوکری کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔

عورت کو اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ والدین کے اپنے بچوں کے ساتھ وقت کو Quality Timeمیں بدلا جائے۔ بچوں کو بہتر Child Careفراہم کی جائے۔ اس طرح سے والدین اپنے بچوں کو کہیں بہتر مستقبل فراہم کرسکتے ہیں۔ عورت کو معاشی طور پر خودمختار بنا کر اس سلسلے میں بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ایک برطانوی ریسرچ ادارے کی رپورٹ کے مطابق،دونوں میاں بیوی کے نوکری کرنے کے خاندانی تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، سروے کیے گئے برطانوی مرد اس بات پر خوش تھے کہ ان بیویاں نوکری کرکے گھریلو اخراجات کا بوجھ شیئر کرتی ہیں،جن سے ان کے خاندان کا ’’معیار زندگی‘‘ بہت بہتر ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ورکنگ مدر، بچوں کے لیے رول ماڈل بن سکتی ہے۔اس سے بچوں کو ابتداسے ہی اچھی زندگی گزارنے کے لیے کام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔امریکا میں ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق، وہ خاندان جہاںمرد اور عورت دونوں کام پر جاتے ہیں، ان خاندانوں کی آمدنی میں 47فی صد حصہ خواتین کا ہوتا ہے۔

آج کے مادی دور میں اور پاکستان جیسے ملک میں جہاںصحت، تعلیم اور سماجی بہبود کے شعبے میں ریاست کا کردار بہت محدود ہے،خاندان کے معاشی استحکام میں عوت کا کردار اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ بچوں کو بہتر مستقبل اسی صورت ہی دیا جاسکتا ہے، جب ہم ان کی تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات کا اچھی طرح خیال رکھیں گے۔اور اس میں عوت کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

کام اور خاندان میں توازن قائم کریں

یقیناً ایک ورکنگ وومن روزانہ پندرہ کرداروں میں اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکتی۔ افراتفری اور کوفت سے بچنے کے لیے وہ اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ اہداف کا بڑی سمجھداری سے تعین کریں، ان اہداف کے حصول کے لیے ترجیحات کی فہرست بنائیں اور اس کے مطابق آگے بڑھیں۔

غیرضروری کاموں کو اپنے اہداف کے حصول کی راہ میںنہ آنے دیں۔ ایک دن سے شروع کریں اور پھر اس عادت کو اپنی زندگی کے آنے والے ہر نئے دن پر لاگو کردیں۔

مثبت پہلو

عام تاثر کے برعکس، تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ نوکری پیشہ خواتین بہتر مائیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایسی مائیں اپنے بچوں کو زندگی کے بارے میں بہتر تربیت دینے کے قابل ہوتی ہیں۔ وہ بچے جن کی مائیں نوکری پیشہ ہوتی ہیں، وہ زیادہ پریکٹیکل اورحقیقت پسندانہ اور پختہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔

ایسے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی کئی ذمہ داریاں خود ادا کرنا پڑتی ہیں، جن سے انھیں زندگی کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کا ملتا ہے۔ مطلب نوکری پیشہ خواتین کے بچے زیادہ اسمارٹ اور خودمختار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ، جب میاں بیوی دونوں دن بھر کام پر گھر سے باہر رہتے ہیں تو شام میں واپسی پر گھر کے کام کاج میںاکثر شوہربھی اپنی بیگم کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ اس سے بچوں میں اچھی عادات پیدا ہوتی ہیں اور ان میں دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔