فیض آباد دھرنا , عدلیہ سمیت مختلف ریاستی اداروں کی تضحیک, نئی رپورٹ پیش کرنے کا حکم

March 20, 2018

اسلام آباد ( نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نےتحریک لبیک کی جانب سے فیض آباد میں لمبے عرصہ تک دھرنا دینے اور اس میں عدلیہ سمیت مختلف ریاستی اداروں کی تضحیک سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران خادم حسین رضوی کے ذرائع معاش سے متعلق آئی ایس آئی کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ کو نامکمل اور غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے نئی رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے جبکہ کیس کی سماعت د و ہفتوں کیلئے ملتوی کردی گئی ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کی یہ کارکردگی ہے تو میں اس ملک کیلئے فکرمند ہوں؟ گزشتہ سماعت پر بھی پوچھا تھا کہ خادم رضوی کون ہے؟ اور پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ آپ کو یہ نہیں پتہ کہ خادم رضوی کا ذریعہ معاش کیا ہے، خادم رضوی بزنس مین ہے؟ خطیب ہے؟ کوئی دوسرا کام کرتا ہے؟ کیا اس کا کوئی بینک اکائونٹ بھی ہے؟ جسٹس مشیر عا لم کی سر براہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سوموار کے روز ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل احمد، وزارت دفاع کے نمائندہ کرنل ریٹائرڈ فلک ناز اور آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹرانور علی پیش ہوئے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے پچھلے حکم کی روشنی میں آئی ایس آئی کی رپورٹ عدالت میں جمع کروادی گئی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ اس رپورٹ سے مطمئن ہیں؟ تو انہوںنے کہا کہ جی ہاں، آئی ایس آئی کی رپورٹ مفصل اور جامع ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ دھرنے میں کون کون کیا کیا کرتا رہاہے؟ انہوںنے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کس طرح گزر بسر کرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ تنخواہ سے گزارہ کرتا ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ اور ہم تنخواہیں لیتے ہیں،آپ کی تنخواہ ایک لاکھ اور خرچہ 25 لاکھ ہو تو کیا آپ سے سوال نہیں ہوں گے؟ کیا یہ کوئی مشکل سوالات ہیں جو پوچھے نہیں جاسکتے تھے ؟ ایجنسی نے رپورٹ میں کیوں نہیں لکھا کہ یہ دوسروں کے پیسوں پر پل رہے ہیں،اس نے اربوں روپے کی جائیداد یںتباہ کروادی ہیں اورآپ کونہیں معلوم یہ شخص کرتا کیا ہے؟اس رپورٹ میں نہیں بتایا گیا ہے کہ خادم رضوی کا کوئی بنک اکائونٹ بھی ہے یا نہیں؟ اس کے پاس پیسہ کہاں سے کہاں سے آتا ہے، اس کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟ ان کو ان چیزوں کا علم ہی نہیں ہے، رپورٹ میں واضح نہیں کیا گیا کہ خادم حسین رضوی کون ہے؟ اور کرتا کیا ہے؟ ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ اتنا پیسہ کہاں سے آرہا ہے؟ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ رپورٹ سے مطمئن ہیں؟ شہریوں کی اربو ں روپے کی املاک تباہ کردی گئی ہے اور آپ کو اس کے بنک اکائونٹس تک کا علم نہیں ،جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ مجھے تو خوف آنے لگا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کا یہ حال ہے،جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق خادم حسین رضوی معاشی طور پر بدعنوان ہیں، جس پرجسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اگریہ شخص کرپٹ ہے توآپ کا فرض نہیں تھا کہ تمام چیزیں حکام کے علم میں لائیں،انہوںنے استفسار کیا کہ خادم رضوی مسجد کے چندے سے چل رہا ہے یااس کاکوئی اور ذریعہ معاش ہے؟ جس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے بتایا کہ وہ مسجد کے خطیب ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا خطیب کو پیسے ملتے ہیں؟ ہم کسی صحافی سے پوچھ لیں تو اسے بھی اس حوالے سے آپ سے زیادہ علم ہوگا، انہوںنے کہا کہ کیا وجوہات بتائی گئی ہیں کہ کن بنیادوں پر وہ کرپٹ ہے؟ ایسا تو اس رپورٹ میں کچھ نہیں لکھا گیا ہے ، جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ کیا یہ مسجد کے چندے سے چل رہا ہے؟ اس کاذریعہ معاش کیاہے؟ جسٹس مشیر عالم نے پوچھا کہ ایک خطیب کو کتنی تنخواہ ملتی ہے؟ جس پر کرنل فلک ناز نے کہا کہ عطیات بھی ملتے ہیں، وزارت دفاع کے ڈائریکٹر لیگل نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ خادم رضوی کرپٹ ہے ۔،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بتایا جاتا ہے کیا ہوتا ہے، اس کی بنیاد کیا ہے؟ ملک کی پریمیئر انٹیلی جنس ایجنسی کا یہ حال ہے؟ کیا آپ کو ریاست پاکستان کا کوئی خیال ہے؟ کرنل فلک ناز نے کہا کہ خطیب عمومی طور پر تنخواہ دار ہوتے ہیں،لیکن اس نے سیاسی جماعت بھی رجسٹرڈ کرا لی ہے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ یہ عمومی تنخواہ دار کیا ہوتا ہے؟ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ کے جواب کا یہ حال ہے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کیا اس نے سیاسی جماعت دھرنے کے بعد رجسٹرڈ کروائی ہے ،جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عدالت میں یہ بات کوئی عام آدمی نہیں کر رہا بلکہ یہ ایک ذمہ دار افسر کی معلومات اور جواب ہے، آپ بھی ہماری طرح عوامی خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں، آپ بھی جوابدہ ہیں، آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ جس پر کرنل نے جواب دیا کہ تنخواہ ہی ہے، جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ ٹیکس دیتے ہیں؟ کرنل فلک ناز نے اثبات میں جواب دیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت نے پچھلی سماعتوں پر کہا تھا کہ خادم رضوی کا ذریعہ معاش بتایا جائے، ہم آپ کی رپورٹ سے مطمئن نہیں، آپ بھی ہماری طرح ٹیکس دہندہ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں، جس پر انہوںنے بتایا کہ خادم رضوی عطیات اکھٹے کرتے ہیں، جس پرجسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیئے کہ پھر آپ یہ بھی لکھ کر دے دیں کہ وہ دوسروں کے پیسوں پر پل رہے ہیں، پاکستان کو بنانا بہت مشکل ہے، تباہ کرنا تو بہت آسان ہے، اگرکوئی ایسی بات ہے، خفیہ معاملہ ہے تو بتائیں ان کیمرہ سن لیتے ہیں،ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ اگر آپ کو ہمیں کوئی خفیہ بریفنگ دینی ہے تو بتادیں؟ آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ میں عدالت میں کچھ دستاویزات جمع کرانا چاہتا ہوں تو جسٹس قاضی فائزنے دستاویزات دیکھنے کے بعد ریمارکس دیئے کہ یہ دستاویزات کیا ہیں، یہ تو اخباری خبروں پر مشتمل رپورٹ ہے اور آپ ایسے دکھارہے ہیں، جیسے کوئی خفیہ دستاویزات ہوں، جسٹس قاضی فائز نے ان کی جانب سے متعلقہ آفس کی بجائے رپورٹ براہ راست عدالت میں جمع کروانے پر برہمی کا اظہا ر کیا، بعد ازاں عدالت نے خفیہ ایجنسی کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نئی رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا ،جبکہ پیمرا کی جانب سے دھرنا کی رپورٹنگ کے حوالے سے رپورٹ نہ آنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے 10 روزمیں رپورٹ جمع کروانے کا حکم جاری کیا اوراٹارنی جنرل آفس سے سوشل میڈ یا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے اقدامات کی رپورٹ بھی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت د و ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ، دوسری جانب آئی ایس آئی کی جانب سے 46 صفحات پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ تحریک لبیک نہ ہی کالعدم جماعت ہے اور نہ ہی واچ لسٹ پر ہے، خادم رضوی بظاہر کرپٹ آدمی ہیں، ان کی شخصی شہرت غیرتسلی بخش ہے ان کا رہن سہن بظاہر ان کی آمدنی سے مطابقت رکھتا ہے،رپورٹ میں تحریک لبیک کے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کو مطلبی اور موقع پرست قرار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسند کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں، رپورٹ کے مطابق خادم رضوی نےمارچ، دھرنا سے قبل ایک کروڑ روپے سے زائد رقم اکٹھی کی تھی اور لوگوں سے کہا تھا کہ یا تومارچ میں شریک ہوں یا پھر 300 روپے فی کس جمع کرائیں، گروپ کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس نے بھی مارچ کیلئے امداد جمع کی تھی ،رپورٹ کے مطابق شیخ رشید، اعجاز الحق اور پی ٹی آئی علما ء ونگ نے بھی مظاہرین کو مدد دی تھی جبکہ ایک نجی ٹی وی 92چینل کے مالک نے مظاہرین کو کھانا فراہم کیا تھا،رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کے شیخ حمید اور ایک نجی ٹی وی تجزیہ کار نے بھی مدد کی تھی، 6 وکلا ء اور 3 ٹریڈ یونینز کے رہنمائوں نے بھی دھرنا مظاہرین کی مدد کی تھی ،رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے مظاہرین کو روکنے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی تھی ، پولیس مظاہرین کی خوراک بند کرنے کے نہ قابل تھی نہ ہی کرنا چاہتی تھی، حکومت نے ہائیکورٹ کے حکم پر 25 نومبر کو آپریشن کیا جو بری طرح ناکام ہوا، جڑواں شہروں کی پولیس میں رابطوں کا فقدان آپریشن میں ناکامی کی وجہ بنا تھا،آئی ایس آئی کے نمائندوں نے حکومت اور مظاہرین میں رابطے کا کردارادا کیا تھا،رپورٹ میں کہا گیاہے کہ وفاقی حکومت نے آزادانہ طور پر دھرنامنتظمین سے رابطہ نہیں کیا تھا، ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں دیگر ایجنسیوں کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پولیس کی اسپیشل برانچ کی طرف سے دھرنے کی محدود کوریج نظر آئی، جبکہ آئی بی کی جانب سے کوئی سرگرمی نظر ہی نہیں آئی، آئی ایس آئی کو اتھارٹی کے ساتھ مکمل کردار ادا کرنے کا کہا گیا تھا، وزیراعظم آفس میں ہونے والی میٹنگ کے منٹس کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ رپورٹ کے مطابق دھرنے کے شرکا ء نے سی ڈی اے کے بجلی کےکھمبوں سے بجلی چوری کی تھی اور سی ڈی اے کا ایک اسٹینڈ بائی جنریٹر بھی استعما ل میں لایا گیا تھا،رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر سرگرمیاں مانیٹر کرنے کااختیار ایف آئی اے کے پاس ہے، کچھ ریاست مخالف سرگرمیاں مانیٹر کی ہیں، اگر ایف آئی اے نے طلب کیں تو انہیں فراہم کردی جائیں گی۔