23 مارچ کا حقیقی پیغام

March 22, 2018

تحریر:مفتی عبدالمجید ندیم…برمنگھم
23 مارچ کا دن ہماری تا ریخ میں ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہی وہ مبا رک دن ہے جس نے برصغیر کے مسلما نوں کو ان کی حقیقی منزل یعنی آزادی سے ہمکنا ر کیا ۔قوموں کی تاریخ میں ایسے دنوں کی بہت زیا دہ اہمیت ہو تی ہے اس لیے کہ وہ ان سے بہت کچھ سیکھ کر منزلِ مقصود تک پہنچنے کی جدوجہد کرتی ہیں ۔آج ہم اپنی تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرنے بعد اپنے مستقبل کی تعمیر کی عملی جدوجہد کو جاری و ساری رکھنا ہے۔قائدِ اعظم ؒ محمد علی جنا ح کے بقول قیامِ پاکستان کی جدوجہد اسی دن شروع ہو چکی تھی جس دن پہلے مسلمان نے ہندوستان کی سر زمین پر قدم رکھا تھا لیکن انگریزوں کے متحدہ ہندوستان پر قبضے کے بعد غلا می کی رات طویل سے طویل ہو تی چلی گئی ۔ ہندو جو بظا ہر اس با ت کا اظہار کر رہے تھے کہ ہندوستان میں بسنے والے تما م لو گ چا ہے ان کا کسی بھی مذہب کے ساتھ تعلق ہو ایک قوم ہیں لیکن قدم قدم پر ان کے خیالات ، اعما ل اور افعال اس با ت کو ثابت کر رہے تھے کہ وہ ہندوستان کی ساری اقوام کو انگریزوں کی غلا می سے نکا ل کر ہندؤں کی غلا می میں دینا چا ہتے ہیں ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ علا مہ اقبا ل ؒ، قائدِ اعظم ؒ اور دوسرے مشاہیر کو اس با ت کا شرحِ صدر حاصل ہو گیا کہ مسلما نوں کے روشن مستقبل کے لیے یہ ضروری ہے کہ انہیںایک الگ قوم کی حیثیت سے تسلیم کیا جا ئے ۔علا مہ اقبا ل ؒ نے اپنے اشعار کے ذریعے واضح الفا ظ میں پیغام دیا کہ مسلمان اپنے مذہب ، اپنی روایات اور اپنی ثقافت کے لحاظ سے با لکل الگ تھلگ قوم ہیں لہٰذا انہیں اپنی دین اقدار کو عملی جا مہ پہنا نے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو رواج دینے کے لیے ایک آزاد خطے کی اشد ضرورت ہے ۔اقبالؒ فرماتے ہیں :
اپنی ملت پہ قیا س اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہا شمی
پھر انہوں نے مسلما نا نِ ہند کو یہ سبق بھی پڑھایا کہ
دیں دے کے اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلما ں کا خسارہ
علا مہ اقبا ل ؒ کو یہ معلوم تھا کہ میرے اس خواب کی تعبیر کو عملی جا مہ پہنا نے کے لیے جس عظیم لیڈر کی ضرورت ہے وہ قائدِ اعظم ِ محمد علی جنا ح کے سوا کو ئی دوسرانہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس عظیم لیڈر کو کا نگریس کے سحر سے نکا ل کر مسلم لیگ کا گرویدہ بنا دیا ۔ مسلما نا نِ برصغیر کی یہ عظیم الشان جدوجہد 23مارچ 1940کو اپنے اس مقام پر پہنچی جس نے اس بے مثال جد جہد کووہ مہمیزدی کہ صرف سات سال کے قلیل عرصے میںمسلما نا نِ ہند نے بیک وقت انگریز اور ہندؤںوکو شکست سے دوچا ر کر کے ایک الگ آزاد و خود مختا ر ریا ست قائم کر لی ۔قوموں کی تا ریخ میںایسا نا ممکن ہے کہ اتنے قلیل عرصے میں ایسا عظیم الشان معجزہ رونما ہو جا ئے لیکن اس سب کے اندر با نیا نِ پاکستان کا خلوص ، عوام کئ خلوص جدوجہد اور اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم شامل تھا ۔لاہور کے منٹو پا رک میں جہاں آج مینا رِ پاکستان اپنی ساری بلندیوں کے ساتھ کھڑا ہے ساٹھ ہزار افراد کیلئے انتظام کیا گیا تھا لیکن جب عوام کا جم غفیر ہندوستان کے کو نے کو نے سے امڈ کر آیا تو وسیع و عریض میدان کی وسعتیں سمٹ گئیں اور ہر سڑک اور چوراہا انسانوں کے سمندر کے سامنے اپنی تنگ داما نی پر نوحہ کنا ں ہو نے لگا ۔حاجی الف دین مرحوم نے جو سٹیج تیا ر کروایا تھا اس کے اوپر ایک بینر آ ویزاں تھا جس پر علا مہ اقبا ل ؒ کا یہ شعر درج تھا جو اہلِ ایما ن کے جذبوں کی ترجما نی کر رہا تھا :
جہاں میں اہلِ ایما ن صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
قرار داد پاکستان سے پہلے قائدِ اعظمؒ نے ڈیڑھ گھنٹہ تک فی البدیہہ ایسی زبردست تقریر کی جو اپنی جا معیت کے لحاظ سے بے مثال تھی ۔قائدِ اعظم ؒ نے فرمایا’’ اسلا م اور ہندو دھرم محض دو مذاہب نہیں بلکہ درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں، چنا نچہ اس خواہش کو خواب ِ خیال ہی کہنا چا ہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کر سکیں گے ۔یہ لو گ آپس میں شادی بیا ہ نہیں کرتے ایک دستر خوان پرکھانا نہیں کھاتے۔ میں واشگاف الفا ظ میں کہتا ہوں کہ یہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیا د ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔‘‘قائدِ اعظم ؒ کی اس تقریر نے نشانِ منزل کو واضح کر دیا ۔اس کے بعد جو نہی قراردادِ لا ہو ر پیش کی گئی تو ہر طرف سے آواز بلند ہو ئی ’’ لے کے رہیں گے پاکستان ۔۔۔بن کے رہے گا پا کستان اور پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الااللہ۔قراردادِ لاہور کے بعد برصغیر کے طول و عرض میں ایسا عظیم الشان جذبہ پیدا ہوا جس سے ہندوستان کے بام و در میں ایک رعشہ سیما ب پیدا ہو گیا ۔ہر طرف آزادی حاصل کرنے کی ایسی جدوجہد تھی جس نے لازوال قربا نیوں کی ایسی درخشاں تا ریخ رقم کر دی جس کی مثال تا ریخ ِ انسانی میں ملنا انتہا ئی مشکل ہے ۔یا د رکھیے یہ ملک ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا گیا بلکہ اس کے لیے لا کھوں افراد لقمہ اجل بنے ، لا کھوں سہا گنوں کے سہا گ لُٹے ، لا کھوں بچے یتیم ہو ئے ، ان گنت خواتین نے اپنی عزت و نا موس کی قربا نی دی تب قرارداد پاکستان کواپنی حقیقی منزل یعنی آزادی نصیب ہو ئی۔آئیے اس مرحلے پر عہد کریں کہ ہمارے آبا ء و اجداد نے اس ملک کو معرض ِ وجود میں لا نے کے لیے جو جدوجہد کی ہے اسے سامنے رکھتے ہو ئے پاکستان کے استحکام کے لیے اپنی ساری قوتیں صرف کر دیں گے ۔پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کےنا زک ترین دور سے گذر رہا ہے ۔ایک طرف دہشت گردی کا عفریت اپنا منہ کھولے ہو ئے ہے تو دوسری طرف نظریہ پاکستان سے بغاوت کا شور ہے۔ایک طرف نا موسِ رسالت کے قواتین پر حملے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف کرپشن کا با زار گرم ہے لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم یو مِ پاکستان کے دن عہد کریں کہ ہم پاکستان کو بچا نے اور مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور کشمیر کو آزاد کرا کر تکمیلِ پاکستان کے آخری مرحلے کو عزت و آبرو کے ساتھ سر کر کے دم لیں گے ۔