اندرونی جھگڑے تحریک انصاف کو انتخابات میں نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں؟

March 22, 2018

ملکی تاریخ میں پہلی بار سیاست کا اونٹ ہر لمحے کروٹیں بدل رہا ہے۔ ’’یہ بیٹھے گا کس کروٹ‘‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جو نظر آ رہا ہے۔ وہ ہو نہیں رہا اور جو ہو رہا ہے وہ دکھائی نہیں دے رہا۔ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ یہ پرانی بات ہو چکی ہے، نئی خبریں کچھ مختلف ہیں۔ جن میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ بہت سی نئی حلقہ بندیوں کو چیلنج کر دیا جائے گا۔ جس سے نگران سیٹ اپ کے طویل ہونے کا اندیشہ ہے ۔

تاہم ان سب باتوں کے باوجود پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں نے الیکشن کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ پی ٹی آئی میں بھی ٹکٹوں کے حصول کی دوڑدھوپ شروع ہو چکی ہے۔ لاہور سمیت دیگر اربن حلقوں میں ٹکٹ کے ایک سے زائد امیدوار موجود ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک خود کو ٹکٹ کا حق دار ثابت کرنے کیلئے زور لگا رہا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کے متحرک ہونے اور ہنگامی بنیادوں پر ممبرسازی کرنے سے پی ٹی آئی میں 2011ء والا پوٹینشل واپس آ رہا ہے لیکن یہاں پھر وہی پرانا مسئلہ پی ٹی آئی کو درپیش ہے، آپس میں خانہ جنگی کا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پارٹی کے اندرونی جھگڑوں کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ ناراض اراکین کو اعتماد میں لیا جائے۔ اگر ان اندرونی جھگڑوں کو ختم نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی آئندہ انتخابات میں نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے چیئرمین عمران خان نے ایک اچھا کام یہ شروع کیاہے کہ جہاں وہ جاتے ہیں پرانے پارٹی رہنمائوں اورکارکنوں کے نام لیکر ان کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے دنوں لاہور میں انہوں نے ڈاکٹر شاہد صدیق کا نام لیکر کہا کہ 2002ء کے انتخابات میں ڈاکٹر شاہد نے عمران خان کے بعد پارٹی میں سب سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ اس بار ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت ان سمیت تمام پرانے ساتھیوں کا خیال رکھا جائے گا۔ یہ ایک احسن ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے کارکنان کے نام لیکر انہیں شاباش دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ گزشتہ دنوں عمران خان کراچی میں تھے تو علی زیدی نے بتایا کہ صرف دو روز میں 35ہزار سے زائد نئے ممبرز رجسٹرڈ کیے گئے ۔ اگر سچ میں ایسا ہے تو پی ٹی آئی بلاشبہ پوٹینشل والی جماعت ہے لیکن ضرورت یہ ہے کہ اس پوٹینشل کو درست سمت میں بروئے کار لایا جائے۔ اگرسمت درست نہ ہوئی تو پی ٹی آئی کو آئندہ انتخابات میں شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ ایک بار پھر کہوں گا کہ اندرونی جھگڑوں کو مائیکرو مینجمنٹ کے تحت ختم کیا جائے۔ وقت بہت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت۔ ابھی تو پی ٹی آئی کو ٹھیک طرح سے معلوم ہی نہیںکہ الیکشن کمیشن کو کس طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہےاور سب سے بڑی بات یہ کہ الیکشن ڈے کو کس طرح کور کرنا ہے۔ یہ ابھی تک پی ٹی آئی کو معلوم نہیں جبکہ پنجاب پی ٹی آئی کی حریف جماعت ن لیگ پہلے دن سے الیکشن ڈے تک سٹرٹیجی پر نہ صرف مہارت رکھتی ہے بلکہ الیکشن کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنےکی بھی بھرپور اہلیت رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی اس اہلیت سے تہی داماں ہے۔ صرف سینٹرل پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان اور ان کی ٹیم شعیب صدیقی، فراز چودھری اور دیگر الیکشن ڈے کور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اربن علاقوں کے ساتھ پی ٹی آئی کو دیہی علاقوں پرتوجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے اس کے لیے جمشید اقبال چیمہ بہترین چوائس ہو سکتا ہے۔ جس کا ذاتی نیٹ ورک نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان بھر کے کسانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ چیئرمین کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر جمشید اقبال چیمہ کی ایگری کلچرل سائٹ پر ڈیوٹی لگادیں۔ اس کے علاوہ 2013ء کے انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت کے پرانے جھگڑوں کی راکھ میں موجود چنگاریوں کو پھر سے ہوا دے کربھڑکانےکی مکمل تیاریاں کی جا چکی ہیں ،جس میں پی ٹی آئی پنجاب کے سب سے اہم ستون عبدالعلیم خان کے خلاف سازش کر کے ٹارگٹ کیا گیا تھا جس کا نقصان پی ٹی آئی کوہی ہوا، ایک قومی اور ایک صوبائی نشست سے پی ٹی آئی محروم ہوگئی تھی ۔ اب پھر عبدالعلیم خان کو ٹارگٹ کرنے کیلئے پی ٹی آئی کے اندر ہی سازشوں کے بلاسٹ کے منصوبے بنائے جا چکے ہیں جن کوپھٹنے سے پہلے ہی ختم کرنا ہوگا،ورنہ پی ٹی آئی کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ ایک بار پھر کہنا پڑ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو کسی باہر کی پارٹی سے کوئی خطرہ نہیں اس کو اپنوں سے اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے غلط فیصلوں سے ہی نقصان پہنچتا ہے۔ اب کی بار ان سب کا سدباب بہت ضروری ہے۔ 25مارچ کو ہونے والے پارلیمانی بورڈ میں ٹکٹوں کا فیصلہ ہو جانا چاہیے تاکہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کی جیت کو یقینی بنانے کیلئے ابھی سے محنت کرنا شروع کر دیں اور ماہ اپریل کا آغاز بھرپورملک گیرانتخابی مہم سے ہونا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے اندر اس وقت اعلیٰ قیادت سے سوالات کیے جا رہے ہیں کہ کیا عام انتخابات میں پی پی کے ساتھ کوئی الائنس یا پھرسیٹ ایڈجسٹمنٹ طے پا نے جارہی ہے؟ پرانے پارٹی رہنمائوں کو منایا جا رہا ہے جن میں سے اکثریت پارٹی ٹکٹ کی خواہش بھی رکھتی ہے۔ یہاں پر اہمیت اس بات کی نہیںکہ پارٹی ٹکٹ پرانے لوگوں کو ملے گی کہ نہیں، اہمیت اس بات کی ہے کہ ٹکٹوں کے جو فیصلے آئندہ دو ہفتوں میں ہونے جارہے ہیں کیا ان کو پی ٹی آئی منظور کریگی کہ نہیں ؟یہ ایک مسئلہ ہے جس پرپی ٹی آئی نے تاحال کوئی حکمت عملی نہیں بنائی ۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سینٹ الیکشن میں کامیابی کے بعد چودھری سرور کے پارٹی میں مزید راستے کھل گئے ہیں۔ چودھری سرور کو پنجاب میں کوئی اہم ذمہ داری دیئے جانےکا امکان روشن ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سنٹرل پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان اور نومنتخب سنیٹر چودھری سرور کے درمیان میں جاری سرد جنگ اب ختم ہو چکی ہے کہ نہیں،حالانکہ چودھری سرور کے سینٹ انتخابات عبدالعلیم خان کی بھی بہت سے مثبت کاوشیں شامل ہیں۔الغرض عمران خان کو چاہیے کہ سینئراورسمجھدار رہنمائوں جیسا کہ جہانگیرترین، میاں حامدمعراج،حامد زمان،میاں محمودالرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد ،اعجاز چودھری، عمرچیمہ اور نذیر چوہان سمیت دیگررہنمائوں پر مشتمل ایک الیکشن کمیٹی فوری طور پر تشکیل دیں جو ملک بھر میں ہنگامی دورے کرے اور کاغذات نامزدگی بھرنے، اثاثے ظاہر کرنے سمیت ہر لحاظ سے قانونی پیچیدگیوں سے امیدواروں کو نہ صرف آگاہ کرے بلکہ ٹریننگ بھی دے خاص طور پر ان امیدواروںکو الیکشن ڈے کو ہر لحاظ سے کور کرنے کی تربیت دی جائے ۔ پولنگ ایجنٹس کی تربیت بہت زیادہ اہم ہے ، پولنگ ایجنٹس کو الیکشن ڈے پر بروقت ان کے مطلوبہ پولنگ اسٹیشن پر پہنچانے اور کھانے پینے سمیت پولنگ ایجنٹس کی ضروریات پوری کرنے کی ایک حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ پی ٹی آئی اس بار اپنی کامیابی کیلئے مکمل طور پر پرامید ہے لیکن کامیابی اسے مذکورہ تمام تر تجاویزبھی عمل کرنا ہوگا ،بصورت دیگراسے مطلوبہ نتائج کے حصول میں دشواری پیش آنے کا احتمال بعیدازقیاس نہ ہوگا۔