جوڈیشل مارشل لا خلاف آئین ، آرٹیکل 6لاگوہو گا، ماہرقانون

March 24, 2018

کراچی(جنگ نیوز)سینئر تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ چوہدری نثار نے نواز شریف سے راستے جدا کرنے کیلئے ذہن بنالیا ہے، نواز شریف اور مریم نواز بھی چوہدری نثار سے جان چھڑانے کیلئے ذہن بناچکے ہیں، چوہدری نثار پر غلط الزام ہے کہ وہ مشکل وقت میں نواز شریف کو چھوڑ دیتے ہیں، نواز شریف پر جب بھی مشکل وقت آیا چوہدری نثار ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ”لیکن!“ میں میزبان نیلم یوسف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں ماہر قانون احمد اویس ایڈووکیٹ اور سینئر تجزیہ کار وجاہت مسعود سے بھی گفتگو کی گئی۔احمد اویس ایڈووکیٹ نے کہا کہ شیخ رشید کا جوڈیشل مارشل لاء کا بیان کنفیوژڈ ہے، اس بیان کی کوئی حیثیت نہیں اس کی مذمت کی جانی چاہئے،آئین و قانون سے بالا کوئی بھی قدم فوجی اٹھائے یا چیف جسٹس آف پاکستان کرے وہ آرٹیکل چھ کے زمرے میں آئے گا۔وجاہت مسعود نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی تقسیم جمہوریت دوست اور جمہوریت دشمن قوتوں کی ہے،ریاست گزشتہ کچھ عرصہ سے ان لبرل اور پروگریسو قوتوں کے موقف کوبھی جائز سمجھنے لگی ہے ۔سینئر تجزیہ کار سلیم صافی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار نے نواز شریف سے راستے جدا کرنے کیلئے ذہن بنالیا ہے، نواز شریف اور مریم نواز بھی چوہدری نثار سے جان چھڑانے کیلئے ذہن بناچکے ہیں، چوہدری نثار جس راستے پر جارہے ہیں اس میں ان کی عزت نفس بھی مجروح ہوسکتی ہے، چوہدری نثار سے زیادہ نواز شریف اور ان کے مشیر اپنے ساتھ زیادتی کررہے ہیں، نواز شریف کو سمجھنا چاہئے کہ چوہدری نثار نہ خواجہ آصف اور نہ احسن اقبال ہیں، حالیہ تنازع میں چوہدری نثار کا موقف درست ہے ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، چوہدری نثار اس زیادتی پر جس طرح ردعمل دے رہے ہیں وہ سیاسی لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار میں ہزار خامیاں سہی لیکن ان پر غلط الزام لگایا جارہا ہے، یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ چوہدری نثار مشکل وقت میں نواز شریف کو چھوڑ دیتے ہیں، نواز شریف پر ابھی حقیقی مشکل وقت نہیں آیا ہے، نواز شریف پر سب سے مشکل وقت اکتوبر 1999ء میں آیا تھا اس وقت چوہدری نثار ان کے ساتھ کھڑے رہے تھے، پرویز مشرف نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے پر چوہدری نثار کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے اسے ٹھکرادیا، چوہدری نثار کے خلاف سازشوں کا آغاز عرفان صدیقی نے کیا جو اس وقت پرویز مشرف کے ترجمان جنرل راشد قریشی کے ماتحت نوکری کررہے تھے، جس مشاہد حسین سید کو نواز شریف نے نوازا ہے وہ ان کے مشکل وقت میں پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے تھے، چوہدری نثار کے علاوہ غوث علی شاہ بھی مشرف دور میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے لیکن نواز شریف نے انہیں بھی بھلادیا، مشرف کے دور میں نواز شریف نے جلاوطنی اختیار کی تو وہ چوہدری نثار ملک میں رہ کر پارٹی سنبھالتے رہے لیکن خواجہ آصف اور احسن اقبال دونوں نواز شریف کے ساتھ لندن اور جدہ میں رہے، اگر ن لیگ کے اندر خوشامد نہیں چل رہی تو طارق فاطمی کو وزارت خارجہ دینے کی کیا وجہ تھی اور عرفان صدیقی کا خوشامد کے سوا کیا کام ہے، جنرل جہانگیر کرامت ہوں یا جنرل پرویز مشرف دونوں کے ساتھ تناؤمیں چوہدری نثار نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے، چوہدری نثار دھرنوں اور لاک ڈاؤن میں بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے، ٹوئٹ کے معاملہ پر ملٹری قیادت کے خلاف سب سے سخت بیان چوہدری نثار نے دیا تھا، پاناما معاملہ میں بھی وقت نے چوہدری نثار کی بات درست ثابت کردی ہے۔ماہر قانون احمد اویس ایڈووکیٹ نے کہا کہ شیخ رشید کا جیوڈیشل مارشل لاء کا بیان کنفیوژڈ ہے، اس بیان کی کوئی حیثیت نہیں اس کی مذمت کی جانی چاہئے، شیخ رشید کو شاید پتا نہیں کہ آئین وقانون کیا ہے اور مارشل لاء کسے کہتے ہیں، آئین و قانون سے بالا کوئی بھی قدم فوجی اٹھائے یا چیف جسٹس آف پاکستان کرے وہ آرٹیکل چھ کے زمرے میں آئے گا، سیاسی قیادت کی کرپشن کے باعث ملک کے حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں، ملکی استحکام کا راز آئین پر عملدرآمد اور جمہوریت صحیح طرح نافذ کرنے میں ہے، وکلاء تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والی خودمختار عدلیہ نے مولوی تمیز الدین سے لے کر اب تک کے وہ تمام فیصلے کالعدم قرار دیدیئے تھے جس نے نظریہ ضرورت کو بنیاد بنا کر مارشل لاء کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ احمد اویس ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی حکومتوں کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے، اتنی کرپشن ہونے کے باوجود اگر عدلیہ بھی لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے ایکٹوازم نہیں کرے گی تو حالات بہت خراب ہوجائیں گے،حکمرانوں اور ججوں سے لے کر جرنیلوں تک سب کو اگر یہ پتا ہو کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں تو معاملات سیدھے ہوجائیں گے۔سینئر تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا کہ سرد جنگ کے زمانے کی دائیں اور بائیں بازوکی کلاسک تقسیم دنیا بھر میں ختم ہورہی ہے، پاکستان میں بنیادی تقسیم جمہوریت دوست اور جمہوریت دشمن قوتوں کی ہے، ہماری ریاست گزشتہ کچھ عرصہ سے ان لبرل اور پروگریسو قوتوں کے موقف کوبھی جائز سمجھنے لگی ہے جنہیں ملک میں مقتدر طبقے کا مخالف سمجھا جاتا تھا، جن لوگوں نے اس ملک میں جمہوریت کی جیلیں کاٹیں وہ وطن کے نہیں آمریت کے مخالف تھے، ان سے زیادہ وطن دوست کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔