الیکشن کمیشن بمقابلہ پارلیمنٹ

March 26, 2018

ملک کی پارلیمانی تاریخ میں عام انتخابات کے دوران ہونے والی دھاندلی ،جھرلو جیسی اصطلاحات سے پینتیس پنکچر جیسے الزامات تک محیط ہے۔ اسی دھاندلی کو روکنے اورعام انتخابات کی شفافیت کویقینی بنانے کیلئے 1956 میں آئین بننے کے بعد پہلی بار الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس الیکشن کمیشن کو اسکندر مرزا کے مارشل لانے کام کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔اس کو پہلی بار ایوب دورکے صدارتی انتخابات میں کردار ادا کرنے کا موقع ملا تاہم محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت نے ایسی گھبراہٹ طاری کی کہ اسی الیکشن کمیشن کے ذریعے عوام کی جلسوں میں شرکت پر پابندی عائد کردی گئی۔ یوں پہلی بارالیکشن کمیشن کا کردارمتنازع ہوا۔1977 کے انتخابات میں مبینہ انتخابی دھاندلی کو بنیاد بنا کر پی این اے نے جو تحریک شروع کی اس نے جنرل ضیا کے مارشل لاکی راہ ہموار کردی۔ اس دن سے گزشتہ عام انتخابات کے انعقاد تک جمہوری عمل میں شرکت سے بائیکاٹ کا فیصلہ ہو یا طویل ترین دھرنا، الیکشن کمیشن کے کردار کی وجہ سے جمہوری نظام ہمیشہ خطرے سے دوچار رہا۔ اسی کردار کو مضبوط بنانے، اسے مکمل خود مختاری دینے اورعوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں ںے اٹھارویں آئینی ترمیم اور حالیہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے تاریخ ساز اقدامات اٹھائے۔ الیکشن ایکٹ 2017کے ذریعے انتظامی اور مالی خود مختاری سمیت الیکشن کمیشن کو صدر یا پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ازخود قواعد بنانے کی اجازت تک دے دی گئی۔ نئی مردم شماری کے عبوری نتائج کے بعد نئی حلقہ بندیوں کیلئے قانون سازی بھی کر دی گئی لیکن اب اسی حلقہ بندیوں کے عمل میں مبینہ بے قاعدگیوں پر تمام سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تو الیکشن کمیشن نے اسے اپنےمعاملات میں مداخلت قرار دے دیا۔ ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی کی زیرصدارت قائم پارلیمانی کمیٹی ہو یا دانیال عزیز کی سربراہی میں بنائی گئی ورکنگ کمیٹی ،الیکشن کمیشن حکام نے ان کے سامنے پیش ہونے اور نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ جبکہ آئین اور قواعد و ضوابط کے تحت الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ملک میں عام انتخابات کا آزاد،غیر جانبدار،شفاف اور منصفانہ انعقاد یقینی بنانا ہے۔لیکن جب عام انتخابات سے براہ راست متعلق فریق یعنی پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں نئی حلقہ بندیوں کے عمل میں دانستہ یا نا دانستہ روا رکھی جانے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کرنے اورسفارشات پیش کرنے کی بات کرتی ہیں تو الیکشن کمیشن اس پر ناک بھوں چڑھا رہا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں حکومت یا اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے بلا امتیازالیکشن کمیشن کی طرف سے کی گئی ابتدائی حلقہ بندیوںپر ایسے اعتراضات اور تحفظات بیان کئے کہ الیکشن کمیشن حکام کے پسینے چھوٹ گئے لیکن اپنی غلطیوں کی اصلاح کی بجائے انہوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔ اس ضمن میں چیف الیکشن کمشنر کےاس رد عمل پر پارلیمانی کمیٹی نے واضح کیا کہ وہ الیکشن کمیشن کے کام میں مداخت نہیں کر رہی بلکہ یہ جائزہ لے رہی ہے کہ الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں میں کس حد تک قانون پر عمل کیا ہے،وہ اپنی سفارشات ایوان میں پیش کرے گی اور ایوان مناسب سمجھتے ہوئے رہنمائی کیلئے اسے الیکشن کمیشن کو بھیج سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو تمام سیاسی جماعتیں آزاد اور شفاف انتخابات چاہتی ہیں اور الیکشن کمیشن کا مطمع نظر بھی یہی ہے یا ہونا چاہئے، تو ایک ایسے عمل پر وہ کیوں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس کا مقصد ہی ان کی معاونت کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس رویئے نے عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور اس کی شفافیت کو مشکوک بنا دیا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی سمیت پارلیمانی کمیٹی کے کئی رہنما یہ باور کر اچکے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن، کمیٹی ارکان کے مشوروں پر کان نہیں دھرے گا تو لوگ سپریم کورٹ جائینگے جس سے الیکشن کا بروقت انعقاد بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ حلقہ انتخاب کسی بھی سیاسی جماعت کے امیدوار کیلئے بنیادی اور سب سے اہم عنصر ہے کیونکہ حلقے کی حدود میں معمولی ردوبدل الیکشن کے نتائج میں غیر معمولی فرق پیدا کر سکتا ہے، اس لئے سیاسی جماعتوں کی حد درجہ حساسیت فطری امر ہے۔۔ قارئین کے گوش گزار کر دوں کہ الیکشن کمیشن نے ابتدائی حلقہ بندیوں میں کون سے ایسے’’کرشمے‘‘ دکھائے ہیں جن کی نشان دہی پر اب الیکشن کمیشن حکام لال پیلے ہو رہے ہیں۔ آئین اور الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق حلقہ بندیوں کیلئے ہر صوبے،وفاقی دارالحکومت اور فاٹا میں کمیشن کے افسران پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جائیں گی اورابتدائی حلقہ بندیوں کیلئے گائیڈ لائنز اور ٹائم فراہم کیاجائیگا جبکہ الیکشن کمیشن نے نہ تو گائیڈ لائنز فراہم کیں اور نہ ہی حلقہ بندیوں کیلئے قائم کردہ کمیٹیوں میں شامل افراد کے کوائف سے سیاسی جماعتوں کو آگاہ کیا۔ ابتدائی حلقہ بندیاں جاری کرنے سے پہلے سیاسی جماعتوں کو محض آگاہ کرنے کی رسمی کاروائی پوری کی گئی۔ حلقہ بندیوں کیلئے لازمی ہے کہ حلقوں میں آبادی کا فرق کسی طور بھی 10 فیصد سے زیادہ نہ ہو اور اگر کسی ناگزیر وجہ سے یہ فرق زیادہ ہو جائے تو اس وجہ کو تحریری طور پہ بیان کرنا ضروری ہوگا لیکن مجوزہ حلقہ بندیوں میں قومی اسمبلی کے 260 حلقوں میں آبادی کا فرق 10 فیصد سے زیادہ جبکہ 81حلقوں میں 30 سے 50 فیصد تک فرق بھی پایا جاتا ہے جس کی الیکشن کمیشن آئین کے مطابق وجہ بتانے کو بھی تیارنہیں۔ غیر سرکاری تنظیم فافن بھی اس اہم خلاف ورزی کی نشان دہی کر چکی ہے لیکن اسے بھی الیکشن کمیشن نے درخواعتنا نہیں سمجھا۔ اسی طرح آئین اور رولز میں حلقہ بندیوں کیلئے انتظامی حدود ضلع اور پٹوار سرکل کوقرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ اس کی کسی صورت خلاف ورزی نہ کی جائے جبکہ ایسا کرنے کی صورت میں تحریری وجہ بیان کرنا ہو گی لیکن الیکشن کمیشن نے رولز میں ترمیم کر کے قانون گو اور تحصیل کی حدود بھی شامل کر دیں چناچہ مجوزہ حلقہ بندیوں میں کہیں ضلع،کہیں تحصیل،کسی جگہ قانونگو اور کہیں پٹوار سرکل کی بنیاد کو حد بندی کا پیمانہ بنایا گیا۔ آئین اور رولز میں یہ بھی قدغن ہے کہ حلقہ بندیاں ضلع کی شمالی سرے سے کلاک وائز کی جائیں گی لیکن الیکشن کمیشن نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی اور نتیجہ ،کسی حلقے میں ایک ایم این اے کے نیچے تین صوبائی حلقے تو کہیں صرف ایک ہے۔ ایسی لاپرواہی بھی پائی گئی کہ کسی حلقے میں متعدد دیہات کہیں بھی شامل نہیں کئے گئے،میرے آبائی ضلع ساہیوال کی مثال لی جا سکتی ہے جہاں 8 دیہات سرے سے غائب ہیں۔ حلقہ بندیوں کیلئے گوگل میپ کا سہارا لینے کا بھی انکشاف ہوا ہے حالانکہ آئین میں واضح درج ہے کہ حلقوں کیلئے ہاتھ سے نقشے بنائے جائیں جس میں دریا، پہاڑ، سڑک، ریلوے لائن سمیت ہر چیز کا واضح ذکر ہو۔ الیکشن کمیشن اور سروے آف پاکستان کے نقشوں میں بھی واضح فرق پایا جاتا ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جس سے مجوزہ حلقہ بندیوں میں الیکشن کمیشن کے کردار کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے تاہم الیکشن کمیشن کا اصرار ہے کہ جس کو اعتراض ہے وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرے جس کیلئے ایک ماہ کی دی گئی مہلت تین اپریل کو ختم ہو رہی ہے جبکہ حتمی حلقہ بندیاں تین مئی کو کر دی جائیں گی۔ حلقہ بندیوں پر اعتراض بذات خود اتنا پیچیدہ عمل ہے کہ اگر بلوچستان یا سندھ کے دوردراز کے کسی حلقے کے فرد کو اعتراض داخل کرنا ہے تواسے پہلے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے اپنے علاقے کو چارج نمبر کے ذریعے ڈھونڈ کر ادارہ شماریات سے مقرر کردہ فیس کے عوض نقشے حاصل کرنا ہوں گے،ایک اعتراض کیلئے درخواست کی آٹھ کاپیاں اور اتنی ہی تعداد میں نقشے درکار ہونگے۔ یہ جوئے شیر لانے کا مرحلہ مکمل کر بھی لیا تو درخواست جمع کرانے کے لئے خود الیکشن کمیشن کے مرکزیدفتر اسلام آباد آنا ہو گا۔ اعتراض پر شنوائی نہ ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کیلئے لاکھوں روپے فیس درکار ہو گی جس کیلئے وقت اور پیسہ چاہئے ہو گا۔عام انتخابات سے چند دن قبل ان بکھیڑوں میں کون پڑے گا سو چار وناچار الیکشن کمیشن کی طرف سے کی گئی حلقہ بندیوں کے تحت ہی میدان میں اترنا پڑے گا۔ قارئین الیکشن کمیشن حکام کے رویے کی روشنی میں یہ تعین خود کر لیں کہ الیکشن کمیشن نے مجوزہ حلقہ بندیاں شفاف انتخابات کو یقینی بنا کر غیر جانب دارانہ نتائج کے حصول کیلئے کی ہیں یا ’’مطلوبہ‘‘ نتائج حاصل کرنے کیلئے اس سے کرائی گئی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)