کیا انتخابات ہوں گے؟

March 27, 2018

جوں جوں وقت گزر رہا ہے سیاسی میدان میں گہما گہمی بڑھتی جارہی ہے اور عوام میں خوف پھیل رہا ہے جانے کیا ہونے جا رہا ہے۔ سیاسی پہلوان خم ٹھونک کر میدان میں اترے ہیں ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے تمام بڑی سیاسی جماعتیں پُرامید دکھائی دے رہی ہیں اس بار حکومت صرف ان کی ہی بنے گی، بلا شرکت غیرے وہی حکومت ساز ہوںگے ان کے تمام مدمقابل منہ کے بل گریں گے، یوں دکھ رہا ہے کہ لنکا میں سب ہی باون گز کے ہیں۔ میاں نواز شریف نااہل ہونے کے باوجود بڑے پرامید ہیں ان کے مشیران کے مطابق عدالت کے فیصلے نے میاں نواز شریف کا حوصلہ بلند کردیا ہے پہلے وہ دبے دبے لہجے میں بولتے تھے اب کھل کر بولنے لگے ہیں عوام ان کے قریب ہوتے جارہے ہیں وہ دن دور نہیں جب عدالت کی سزا ہَوا ہوجائے گی اور میاں نواز شریف عوام کے کندھوں پرسوار ہوکرمسند اقتدار پر جلوہ گر ہوں گے اب دیکھنا ہے کہ ہوتا ہے کیا کس کے سر ہما بیٹھتا ہے۔
دوسری طرف پٹے ہوئے سیاسی مہروں کی جماعت کے کپتان ہیں جن کا گمان ہے کہ آنے والے وقت کے وہی سکندر ہوں گے میاں صاحب کا پتا انہوں نے صاف کر ہی دیا ہے ن لیگ کے غبارے میں ایسا پنکچر کر دیا ہے کہ جس کی مرمت اب ممکن نہیں۔ آنے والا وقت لیگیوں کے لیے مزید مصیبت لا رہا ہے نیب کا آنے والا فیصلہ اس کی رہی سہی حیثیت بھی ختم کردے گا پیپلز پارٹی پہلے ہی اپنی حیثیت کھوچکی ہے جو کچھ رہ گئی تھی وہ سینیٹ کے حوالے سے ہوا ہوگی اب صرف تحریک انصاف ہی وہ جماعت رہ جاتی ہے اگر وہ کھمبے کو بھی کھڑا کر دے تو وہ کامیاب ہی ہوگا، جب کہ ان کے ایک ناراض رکن کا کہنا ہے کہ بلی کو خواب میں بھی چھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں، ان کے مطابق پختون خوا نے گزشتہ الیکشن میں عمران خان کو ووٹ دے کر جوغلطی کی تھی اس کا نتیجہ انہیں مل چکا ہے نیا پاکستان تو وہ کیا بنائیں گے نیا پختون خوا تک وہ بنا نہیں سکے اس بار تو پختون خوا بھی ان کے ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے، خان صاحب جو وزارت عظمی کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ خواب رہے گا خان صاحب میں صبر کی کمی ہے انہوں نے اپنے اردگرد پٹے ہوئے مہرے جمع کرلئے ہیں جو خود تو ڈوبیں گے خان صاحب کوبھی لے ڈوبیں گے۔ یہ جو تمام پٹے پٹائے سیاست دان ان کے گرد جمع ہیں کیا ان میں کوئی ایک بھی ایسا ہے جو اپنے لگے بندھے اصولوں سے ہٹ کر کچھ نیا کرسکے اگر وہ لوگ کچھ نیا کرنے والے ہوتے تو یوں اپنی جماعتوں کو نا چھوڑتے۔ خود عمران خان میں سیاسی بصیرت کی کمی ہے ان کی طبیعت آمرانہ ہے۔ بظاہر مشورہ بھی کرتے ہیں لیکن کرتے وہی ہیں جوان کی مرضی ہوتی ہے، یوں تو وہ زرداری کو برا کہتے رہتے ہیں لیکن ان کے پشت پناہوں نے انہیں سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے جو کہا جیسا کہا وہ کرنا پڑا۔ آنے والے الیکشن کے بارے میں ان مخالفین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اتنی کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی جتنی پچھلے الیکشن میں حاصل کر چکی ہے حالانکہ ابھی سینیٹ کے حالیہ الیکشن کے موقع پر بلوچستان کی بظاہر مضبوط لیگی حکومت کا جس طرح سے تختہ پلٹا وہ کسی سے چھپا نہیں پھر چیئرمین سینیٹ کو منتخب کرانا، حکومت تمام تر برتری کے با وجود منہ دیکھتی رہ گئی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سیاست اسی کا نام ہے پیپلز پارٹی کے اکابرین لاکھ سیاست آشنا ہوں لیکن عوام کی ضروریات سے آشنا نہیں وہ سیاست صرف اپنے مفادات کے لیے کرتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام کے مسائل بھی حل کیے جائیں اقتدار ہر قیمت ہر حال میں حاصل ہونا چاہیے۔ وطن عزیز میں اقتدار کے حصول کیلئے نبردآزما تمام ہی سیاسی جماعتوں خصوصاََ تینوں بڑی جماعتیں میدان میں آمنے سامنے آچکی ہیں سیاسی دنگل شروع ہونے کو ہے کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا گمان ہے یہ سب سوچا سمجھا منصوبہ ہے پس پردہ قوت جس طرح چاہ رہی ہے ویسا ہی کھیل کھیلا جارہا جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کھلاڑی اور تماش بین سب کے سب دیکھتے رہ جائیں گے۔ اللہ ہماری اور ہمارے وطن کی حفاظت فرمائے، آمین۔