چین: کم کیمیائی کھاد سے زیادہ پیداوار

April 03, 2018

مرزا شاہد برلاس

چین میں ایک منصوبے کے تحت کم زمین رکھنے والے لاکھوں چینی کسانوں نے کیمیائی کھاد میں قابل ذکر کمی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی غلہ کی فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے ۔سائنسدانوں نے اس منصوبے کے لیے ایک عشرے پر محیط اپنے ایک جائزے میں زرعی اعداد وشمار کا تجزیہ کیا تھا ،تا کہ زراعی کے طر یقوں میں بہتری لاکر فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرتے ہوئے کیمیائی کھاد کے استعمال میں کمی لائی جا سکے۔ان طر یقوں کی دریافت کے بعد ان کو ایک ملک گیرمہم کے ذریعے کم زمین رکھنے والے کسانوں میں منتقل کیا گیا تھا ۔

جن کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے تقریباً29 لاکھ کسانوں نے اپنی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ ماحول کی آلودگی میں کمی بھی کی تھی ۔ماہرین کے مطابق اس اضافی پیداوار سے کسانوں کی آمدنی میں 12.2 (بارہ اعشاریہ دو ارب ) ڈالر کا اضافہ ہو ا تھا اور وہ پہلے سے زیادہ خوش حال ہوگئے تھے ۔

اس منصوبے کے اتنے عظیم پیمانے پر عمل درآمد نے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔جن کے اندازے کے مطابق 2005 ء سے 2050 ء کے درمیان عالمی غلہ کی طلب میں دو گنا اضافہ ہو جائے گا ۔چناں چہ ماہرین اُمید کرتے ہیں کہ اس جائزے کے اسباق کو دوسرے ملکوں میں بھی روشناس کرایا جائے گا ۔بر طانیہ کی لیڈ یونیورسٹی میں زراعتی پائیداری کی شدت کے منصوبوں پر تحقیق کرنے والی ’’لیسلی فربنک ‘‘ کے مطابق یہ ایک حیرت انگیز منصوبہ ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا تھا ۔

چارلیس گاڈفر ے بر طانیہ کی آ کسفورڈ یونیورسٹی میں آبادیاتی حیا ت کے ماہر ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ چین نے گذشتہ تین عشروںمیں اپنی ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی کی اکثریت کی ضروریات کا غلہ پیدا کرکے ایک معجزہ انجام دیا ہے۔

لیکن اس کامیابی سے انہیں ماحول کی آلودگی میں زیادتی کی بڑی بھا ر ی قیمت اداکرنی پڑی ہے۔ فر ٹیلا ئز ر میں نائٹروجن کے استعمال نے گو پیداوار میںاضافہ کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مٹی میں تیزابیت اور پانی میں آلودگی پیدا کرنے کے ساتھ ہی کریاتی تپش (global warming) میں بھی اضافہ کیا ہے۔گاڈفرے کا کہنا ہے کہ حالیہ مطا لعہ سےاس با ت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فرٹیلائزرکےاستعمال میں کمی لاکر بھی بڑے پیمانہ پر مالی طو ر پر منفعت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

چینی کسان ایک سال میں تقریبا305ًکلوگرام فی ہیکٹر فر ٹیلا ئزر ا ستعمال کرتے ہیںجو عالمی اوسط سے چار گنا زیادہ ہے۔بیجنگ کی ا گر یکلچر ل یونیورسٹی میں تعینات اس منصوبہ کے لیڈر کوئی زنلنگ اور ان کے سا تھیو ں نے اس بات کا چیلنج قبول کیا تھا کہ وہ پیداوار کو متاثر کئے بغیر فر ٹیلا ئیزر کی مقدار میں کمی کو ممکن بنائیں گے۔

اس منصوبہ کی ٹیم نے 2005سے 2015ء کے درمیانی عرصہ میں پورے ملک میں 13.123 کھیتوں میں مکئی ،چاول اور گندم کی فصلوں کا مطالعہ کیا تھا جو جنوبی خطہ حارہ کے علاقوں سے شمالی یخ بستہ علاقوں تک مشتمل تھا۔

ٹیم نے اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ کسی فصل کی مختلف اقسام، ان کے لگانے کےا وقات، پودوں کا باہمی فاصلہ، فرٹیلائزر اور پانی کے استعمال میں کیا فرق تھا۔علاوہ ازیں انہوں نے سورج کی روشنی اور موسمی اوقات کے پیداوار پر پڑنے والے فرق کا بھی مشاہدہ کیا تھا۔

تقریباً 21,000,000(دوکروڑ دس لاکھ ) کسانوں نے 2006 سے 2015ء کے درمیانی عرصہ میں اس ٹیم کی سفارشات پر عمل کیا تھا، جس کے سبب ہر جنس کی پیداوار میں ا و سطاً 11فیصد کا اضافہ ہوا تھا جب کہ ٹیم نے اس پر تعجب بھی کیا کہ ہر جنس میں استعمال ہونے والے فرٹیلائزر میں 15 فی صدکی کمی نوٹ کی گئی تھی،جس کے سبب مجموعی طو ر پر 1200,000 (بارہ لاکھ ٹن) نا ئٹر و جن کی کفایت ہوگئی تھی۔اس بات کے مظاہرہ سے معلوم ہونے والی یہ با ت بھی بہت اہم ہے کہ فرٹیلائزر کے استعمال میں کمی لاکر بھی زرعی پیداوار میں اضافہ ،ماحول میں بہتری اور آمدنی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔

گاڈفرے کے مطابق گذشتہ ایک عشرے میں کسانوں سے 14000ملاقاتوں او ر ور کشا پو ں کے ذریعہ سے کسانوں کو قائل کیا گیا تھا کہ وہ ٹیم کی سفارشات پر عمل کریں۔کسان پہلے تو خدشےمیں مبتلاتھے لیکن ہم نے ان کا اعتماد حاصل کرلیا۔ تب وہ ہماری باتیں غور سے سن کر ان پر عمل کرنے لگے جو ہمارا سب ے بڑا انعام تھا۔چوئی نے بتایا کہ اس منصوبے میں کھیتوں میں عملی مظاہرے ، اعلٰی بیج اور فر ٹیلا ئیز ر کی فراہمی پر 5400,000ڈالر خرچ ہوئے تھے۔

پورے چین میںکسانوں کے د اخلوں تعلیم اور تربیت کے لئے 1000ریسرچ کرنے والوں اور 65000افسروں نےتاور ٹیکنیشنوں نے صوبائی اور کائونٹی ایگریکلچرل ایجنسیوں کے علاوہ 140,000 تجار تی اداروں کے نمائندوں نے بھی ا پنی خدمات انجام دی تھیں۔اس منصوبے کی کامیابی سے سماجی سطح پر بنائے ہوئے نیٹ ورک کی ضرورت کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار برطانیہ کی لو چیسٹر میں قائم ایس سیکس یونیورسٹی میں ماحول اور معاشرے کے موضوع پر تحقیق کرنے والی جولس پریٹی نے کیا تھا ۔

اس منصوبے کے بارے میں سینٹ پال کی یونیورسٹی آف منی سوٹا کے ایکولوجسٹ ڈیوڈ ٹلمین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ سائنسی علم کی کھیتوںمیںعمل در آمدکی نایاب مثا ل ہے۔ پائیدار زرعی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ کسانوں کو اس با ت پر آمادہ کرنا ہے کہ اب وہ زیادہ موثر طریقوں کو اپنائیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی یہ طریقے اپنائے جانے چاہییں۔

لیکن کچھ تحقیقی ماہرین کا خیال ہے کہ اس منصوبہ سے حاصل ہونے والے اسباق پر دوسرے ملکوں میں عمل درآمدبہت دشوار ہوگا، کیوں کہ چین میں پید ا و ا ر ی اضافہ ضرورت سے زیادہ فر ٹیلا ئز ر کے استعمال میں کمی لانے سے ہوا ہے۔

جب کہ گاڈفرے کا کہناہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ملکوں میں تو فرٹیلائزر کی ضروری مقدار بھی کسانوں کی دسترس سے دور ہوتی ہے، کیوں کہ چین کی حکومت کو مرکز سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔اس لیے وہ ایساواحد ملک ہے جہاں پر ایک پالیسی پر عمل کرایا جاسکتا ہے جب کہ دوسرے ملکوں میں ایسی حکومتیں نہیں ہیں۔

لیکن سب صحارائی (Sub-Saharan) افریقی ملکوںمیں اس کی افادیت ہوسکتی ہے۔ بشر ط یہ کہ ایسی پالیسی بنائی جائے جو سر حد و ں اوراداروں کی پابندیوںسے ماور ا اور فنڈ فراہم کرنے والے ذرائع کی شرائط سے بھی آزاد ہو۔ا س طرح کے چیلنجوں کی وجہ سے دوسرے ملکوں کو اس طرح کے تجر بات کرنے سے رکنا نہیں چاہیے لیکن یاد رکھیے کہ صرف پیداوار میں ا ضافہ ہی مطمح نظر نہیں ہونا چا ہیے ۔چین کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ قوموں کو اپنی غذائی ضر و ر یات کے لئے اپنی جھیلوں،دریائوں اور سمندروں کو آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔

ماہرین کے مطابق یہ ایک بڑا چیلنج جو اس وقت تمام اقوام کو درپیش ہے کہ کس طرح ایسی غذافراہم کی جاسکے جو کم گوشت پر مبنی ،صحت مند اور بیماریوں اور آلودگی سے پاک ماحول کو بر قرار رکھ سکتی ہو ۔