جسٹس چوہدری کے بعدسپریم کورٹ کے مسائل

February 06, 2016

جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ کی اخلاقی اتھارٹی کے پھیلنے اور سکڑنے سے سوچ پیدا ہوئی کہ سپریم کورٹ میں موجودہ دیگر جج حضرات ، جو چوہدری صاحب سے جونیئر تھے، سبق سیکھ چکے ہوںگے ، اور جب اُن کے چیف جسٹس بننے کی باری آئے گی تو عدلیہ میں اصلاحات لائی جائیں گی تاکہ غیر ضروری عدالتی فعالیت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کی پالیسی کوتبدیل کرتے ہوئے نظام کی خرابیوں ، جیسا کہ جوڈیشل احتساب کا فقدان، تقرری میں عدم شفافیت اور جسٹس سسٹم میں نقائص ، کو دور کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
تاہم ، جیسا کہ Jean-Baptiste Carr کا کہنا ہے ۔۔۔۔’’زیادہ تبدیلی سے معاملات جوں کے توں رہتے ہیں، یعنی اُن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔‘‘جسٹس چوہدری صاحب کے دور میں سپریم کورٹ کی فعالیت زیادہ تر ذاتی نوعیت کی رہی اور انتظامی معاملات میں مداخلت کو روارکھا گیا۔ دوسری طرف بطور ادارہ ، عدلیہ کی اصلاح اور تقویت کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہ آئی۔ آج دوسال بعد ہمارے سامنے سپریم کورٹ وہی کچھ کرنا چاہتی ہے جو جسٹس چوہدری نے کیا تھا ، لیکن وہ بوجوہ ایسا نہیں کرپارہی۔ کچھ حوالوںسے معاملات مزید خرابی کی طرف بھی بڑھ گئے ہیں۔ جوڈیشل اتفاق ِرائے سے عدالتی فعالیت کا تعین ، جو جسٹس چوہدری کے زمانے میں بدقسمتی سے نہ کیا جاسکا، کرنے اور عدالت کی اتھارٹی کی حدود طے کرنے کی بجائے ہم نے دیکھا کہ سپریم کورٹ نے کچھ مخصوص کیسز میں ایسے فیصلوں کو تبدیل کیاجو جسٹس چوہدری کی اپنی سوچ کا شاہکار تھے۔ ڈان میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں صلاح الدین احمد نے سپریم کورٹ کی طرف سے حالیہ دنوں اپنے کیسز پر نظر ِ ثانی کرنے کی کوشش کا جائزہ لیتے ہوئے سوال اٹھایاہے کہ کیا ہماری موجودہ سپریم کورٹ زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلطیوں کااعتراف کررہی ہے یا اس نے پہلے دور میں غلطیاں ہی بہت زیادہ کی تھیں۔
یہ موضوع پہلے بھی بارہا زیر ِ بحث لایا جاچکا ہے کہ فاضل عدالت اس لئے حتمی اتھارٹی نہیں رکھتی کہ یہ بے خطا ہوتی ہے بلکہ اس لئے بے خطا سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ لیکن آج اس کے حتمی ہونے کا تاثرتحلیل ہوتا محسوس ہورہا ہے کیونکہ یہ اپنے فیصلے تواتر سے تبدیل کررہی ہے۔ اس سے تاثر یہ جارہا ہے کہ یہ نہ تو بے خطا ہے اور نہ ہی حتمی۔ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں پر نظر ِ ثانی کو صرف اُس صورت میں رواسمجھا جاسکتا ہے یا اُن کی گنجائش نکلتی ہے جب کوئی فاش غلطی دکھائی دے،لیکن موجودہ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر اس تواتر سے نظر ِ ثانی کررہی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ بھی معمول کی عدالتی کارروائی کا حصہ ہو۔
اس فعالیت کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ سپریم کورٹ کی نظر ِ ثانی کی اہلیت کہاں تک ہے۔ سپریم کورٹ کی سربراہی تبدیل ہونے سے سابق دور میں کئے جانے والے فیصلوں پر نظر ِثانی کی اپیلیں دائر ہونے لگتی ہیں۔ تلور کے شکار پر پابندی کے فیصلے پر نظر ِ ثانی اس کی ایک مثال ہے۔ افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد چار چیف جسٹس صاحبان اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔اگلے تین سال تک مزید دو چیف صاحبان اور اگلے پانچ سال تک مزید تین جج اس عہدے پر فرائض سرانجام دینے کے بعد سبکدوش ہوجائیں گے۔ اگر ہم نے جوڈیشل فعالیت اور انتظامی طاقت کا اظہار کسی چیف صاحب کی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ہوتے دیکھنا ہے تو پھر بطور ادارہ سپریم کورٹ کی کیا حیثیت باقی رہے گی؟خیال کیا جاتا تھا کہ جسٹس چوہدری کے بعد کے دور میں سپریم کورٹ سوموٹو لینے کے اپنے اختیار کا جائزہ لے گی اور قانون کی واضح طریقے سے تشریح کی جائے گی، لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس کے بجائے اس نے سابق دور میں کئے گئے فیصلوں پر نظر ِثانی کی پالیسی بنالی۔
اگر ہائی کورٹس کے جج اور وکلا حضرات اس بات کا تعین کرسکیں گے کہ وہ حوالوں کے لئے سپریم کورٹ کے جن فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں وہ کچھ عرصےبعد باقی رہیں گے یا اُن پر نظر ِ ثانی کردی جائے گی؟ تواتر سے سربراہوں کی تبدیلی سے فاضل عدالت میں سابق دور کے فیصلوں پر تنقید دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس سے ایک افسوس ناک صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ جسٹس چوہدری کے دور سے بھی زیادہ افسوس ناک صورت کی طرف بڑھ رہی ہے؟ہمارا آئین ایک وفاقی عدالت کے قیام پر زور دیتا ہے۔ کیا جوڈیشل تقرریوں اور سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات اسے ایک انتہائی بااختیار ادارہ نہیں بنا دیتے؟ آرٹیکل 197کے تحت اضافی ججوں کی تقرری کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے ذریعے آرٹیکل 193کے تحت تقرری کو مستقل کردیا جائے ۔
ایک اضافی جج ، جس کے پاس عہدے پر قائم رہنے کی یقین دہانی نہ ہووہ جوڈیشل آزادی کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ ابھی ہم جسٹس چوہدری کے بعد سپریم کورٹ میں پیدا ہونے والا خلا پورا کرنے کے قابل نہیں ہوئے کیونکہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے بہت سے جج حضرات کو فرائض سے سبکدوش کردیا گیا تھا۔ جس طریقے سے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے ساتھ برتائوکیا گیا، وہ بھی ایک چشم کشا معاملہ ہے۔ اس کے بعد ہمارے پاس ہائی کورٹس میں بہت سے نوجوان اور قدرے ناتجربہ کار جج فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے اضافی جج بھی ہیںجن کی قسمت کا ابھی تک تعین نہیںہوسکا کہ کیا اُنہیں مستقل کیا جائے گا یا نہیں۔یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک اضافی جج کو مستقل کرتے ہوئے کیا چیز دیکھی جاتی ہے؟ کیا اُس کی ایمانداری؟ کیا صلاحیت کی جانچ ہوتی ہے؟ کیا اُس کی طر ف سے کیسز کو اچھے طریقے سے نمٹانے اور بہتر فیصلے دینے کو دیکھا جاتا ہے؟ کیا اُس کے فیصلوں کے معیار ، یا اُس کی طرف سے کسی چیمبر کا حصہ ہونے کو دیکھا جاتا ہے؟کیا محض اخلاق کی پرکھ ہوتی ہے؟یا پھر سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کے ساتھ ’’ذاتی تعلقات ‘‘ ہی فیصلہ کن عامل ثابت ہوتے ہیں؟کوئی نہیں جانتا کہ یہ معاملہ کیسے طے کیا جاتا ہے ؟
کیا سپریم کورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے کلی اختیارات میں کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی؟اس کے لئے موثر احتساب کی ضرورت محسو س کی جارہی ہے کیونکہ یہ کونسل ماتحت عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اس پر دبے الفاظ میں کچھ الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ اپنی فعالیت کو شفاف اور واقعی سپریم بنانا چاہتی ہے توپھر اسے تمام مسائل سے نجات پانا ہوگی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے کچھ اچھے کام بھی کئے تھے، لیکن اُن کی اصل ناکامی یہ تھی کہ اُنھوں نے سپریم کورٹ کی طاقت کو اتنے بے دریغ طریقے سے استعمال کیا جس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی۔ اب موجودہ دور میں فوجی عدالتوں کے قیام کو روایتی عدالتی نظام کے خلاف’’عدم اعتماد‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔ اگر جسٹس چوہدری صاحب عدلیہ کی حالت بہتر بنادیتے تو شاید اس کی نوبت نہ آتی۔