نہر پر چل رہی ہے پن چکی

April 10, 2018

چکی چل رہی ہے۔ اب وہ پانی سے چل رہی ہو یا بجلی سے، وہ چل رہی ہے۔ اس کام کو چلنا اور چلتے رہنا ہے۔ اس کے دو پاٹوں کے بیچ سے کیا نکلتا ہے؟ یہ اس کی اپنی ذمہ داری نہیں ہے۔ ان پاٹوں کے بیچ جو ڈالا جائے گا وہی نکلے گا۔ اور ہاں، یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ان دو پاٹوں کے بیچ جو بھی آجائے گا وہ ثابت نہیں بچے گا۔ آج کل ہم وقت کی اسی چکی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ تماشہ ہم نے اس لئے کہا کہ اس چکی کو چلانے میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اسے چلانے والے کوئی اور ہیں۔ وہ ایسے نامعلوم بھی نہیں ہیں کہ ہم انہیں نامعلوم افراد کہہ کر اپنی جان چھڑا لیں۔ لیکن اتنے معلوم بھی نہیں ہیں کہ ہم ان کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت کر سکیں۔ یہ جرأت والی بات ہمیں اپنے ٹیلی وژن کی وہ تین چار اسکرین دیکھ کر یاد آئی ہے جو کل تک ہمار ے گناہوں کی طرح سیاہ تھیں، اور اب وہاں دوسرے چینلوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ بہرحال ہم چکی کی بات کر رہے تھے۔ یہاں ہمیں چکی اور وہ بھی پانی کی چکی کیوں یاد آئی ہے؟ یہ ہم آپ کو بعد میں بتائیں گے۔ اس وقت تو ہم آپ کو اسلام آباد کی تیسری عید کی چہل پہل میں لے جانا چاہتے ہیں۔ پچھلے سال انہی مہینوں میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ اسلام آباد میں دو عیدیں، عید الفطر اور بقر عید ہی نہیں منائی جاتیں بلکہ ایک ’’کتاب عید‘‘ بھی منائی جاتی ہے۔ اور یہ ہوتا ہے نیشنل بک فائونڈیشن کا سالانہ قومی کتاب میلہ۔ ہوتا تو یہ کتاب میلہ ہے لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی کے خاندان کے خاندان رنگ برنگے کپڑے پہنے جس سج دھج سے اس میلے میں شریک ہوتے ہیں وہ اسے اس شہر کی تیسری عید ہی بنا دیتے ہیں۔ اور پھر پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر کی عمارت کو جس خوبی سے سجایا جاتا ہے وہ بھی عیدالفطر، بقر عید یا کسی تہوار کا سماں ہی پیدا کر دیتا ہے۔ اب اس گہما گہمی میں کتابوں کی خوب خریداری بھی ہو جاتی ہے۔ یہ اس میلے کا معاشی پہلو ہے۔ لیکن اس میلے کا اصل مقصد تو عام آدمی میں کتاب خوانی کا شوق پیدا کرنا ہے۔ یہ اس کا علمی، ادبی اور ثقافتی پہلو ہے۔
اس میلے میں پاکستان اور پاکستان سے باہر کے رہنے والے لکھاری اپنی کتابوں کے کچھ حصے پڑھ کر سناتے ہیں۔ اس میں اردو، انگریزی اور نثر و شعر سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ اب چونکہ پڑھنے والے زیادہ ہوتے ہیں اسلئے ان سے کہا جاتا ہے کہ بہت ہی چھوٹا سا حصہ پڑھ دیجئے۔ لیکن اسی قسم کی ایک نشست میں ایک خاتون نے محفل کو زعفران زار بنا دیا۔ وہ پڑھ رہی ہیں اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ میزبان ان کی خوشامد کر رہا ہے کہ بس اب ختم کر دیجئے، مگر وہ ہیں کہ پڑھے چلی جا رہی ہیں۔ خوشامد ایک بار، دو بار، تین بار، وہ خاتون مان کے ہی نہیں دے رہی ہیں۔ آخر میزبان انکے آگے ہاتھ جوڑ دیتا ہے اور حاضرین قہقہے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر ہمیں بہت پرانا ایک مشاعرہ یاد آ گیا۔ ایک شاعر صاحب اپنا کلام سنائے چلے جا رہے تھے۔ بار بار ٹوکنے کے باوجود وہ ختم نہیں کر رہے تھے تو حاضرین میں سے ایک شخص اٹھا اور انہیں گود میں اٹھا کر اسٹیج سے نیچے اتار لایا۔ یہاں یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ خاتون تھیں۔ اچھا تو، اس چینی مرکز کی عمارت میں کتنے کمرے ہیں؟ ان کی گنتی ہم نے نہیں کی، مگر یہ ضرور دیکھا کہ ہر کمرے میں کوئی نہ کوئی محفل جمی ہوتی تھی۔ ایک کمرے میں ’’اردو افسانے اور اس کی عصری حسیت‘‘ کے بارے میں بات ہو رہی ہے تو دوسرے کسی کمرے میں علامہ اقبال یاد کئے جا رہے ہیں۔ ایک اور کمرے میں تاریخ نویسی زیر بحث ہے تو کسی اور کمرے میں پاک چائنا کوریڈور پر بات ہو رہی ہے۔ آج کل ادبی جشن اسی طرح منائے جاتے ہیں۔ یہ سب عصری حسیت ہی تو ہے۔ اب رہی ادب کی بات، تو ادب اپنے زمانے کی حسیت ہی تو پیش کرتا ہے۔ ایک نشست میں اسی عصری حسیت کے نمائندہ افسانے ہمارے سامنے بھی تھے۔ یہ تھے اصغر ندیم سید کے افسانے، جو ’’کہانی مجھے ملی‘‘ کے نام سے شائع کئے گئے ہیں۔ اگر آپ یہ افسانے غور سے پڑھیں تو ان میں آپکو پاک چائنا کوریڈور پر بھی ایک افسانہ ملے گا۔ اب وہ جو کہتے ہیں کہ ہر زمانہ اپنے تخلیقی ادب کیساتھ نئے نقاد بھی سامنے لاتا ہے، تو ہمارے نئے زمانے نے ہمیں ادب کے دو نئے نقاد بھی دیے ہیں۔ یہ ہیں ناصر عباس نیر اور محمد حمید شاہد۔ یہ دونوں نقاد بھی ہیں اور افسانہ اور ناول نگار بھی۔ حمید شاہد نے تو ادب کے میدان میں افسانہ نگار کی حیثیت سے ہی قدم رکھا تھا۔ وہ بعد میں نقاد کے روپ میں سامنے آئے۔ البتہ ناصر عباس نیر نے پہلے تنقید کے میدان میں اپنا لوہا منوا لیا تو اسکے بعد افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے۔ حمید شاہد کی نئی کتاب ’’اردو فکشن:نئے مباحث‘‘ پر ایک نشست میں خوب زور دار بحث ہوئی۔ ایسی بحث کہ اصل کتاب پیچھے رہ گئی اور ادب کی تاریخ اور چند ادبی شخصیات آگے آ گئیں۔ اب جہاں مرزا حامدبیگ جیسے ادب کے مورخ اور استاد موجود ہوں تو وہاں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ادب کی تاریخ اور اس میں مرزا صاحب کا اپنا حصہ زیر بحث نہ آئے۔ چنانچہ وہاں یہی ہوا۔
اب پن چکی کی بات بھی ہو جائے۔ اختر رضا سلیمی شاعر ہیں اور ناول نگار ہیں۔ جب ان کا پہلا ناول ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘ شائع ہوا تو اس نے ادب کے قاری کو اس لئے چونکا دیا تھا کہ ناول کی کہانی کا مقام پاکستان کا وہ علاقہ تھا جس کی طرف کسی ادیب کی نظر ہی نہیں گئی تھی۔ یہ تھا ہزارہ اور مانسہرہ کا پہاڑی علاقہ۔ اب ان کا دوسرا ناول ’’جندر‘‘ سامنے آیا ہے تو اس کی کہانی بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔ پہلے تو خود ناول کا نام ہی اردو پڑھنے والے کو چونکاتا ہے کہ آخر یہ ’’جندر‘‘ ہے کیا چیز؟ ناول پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جندر اس علاقے میں پن چکی کو کہتے ہیں۔ ناول میں یہ جندر ایک استعارے اور ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ علامت ہے اس قدیم تہذیب کی جو مشینوں کی آمد کے بعد معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار اپنی اس قدیم تہذیب کے ساتھ خود بھی آخری دموں پرہے۔ اس ناول میں ہم اس مٹتی ہوئی تہذیب کے ساتھ اس علاقے کی زندگی، وہاں کی انسانی تاریخ اور نئے اور پرانے رشتوں کی الجھنوں کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں۔ ہم تو اس لئے بھی خوش ہیں کہ اس ناول نے اردو زبان کو نئے لفظ بھی دیئے ہیں۔ جندر اب ہزاروی زبان کا لفظ نہیں رہا، اردو کا لفظ بھی بن گیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)