سیاست کے انوکھے تیور

April 17, 2018

قلم پکڑا تو سیاست پہ لکھنے کو جی نہ چاہا حالانکہ عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری بلکہ اول تو لاتعداد تجزیہ نگاروں اور ٹی وی چینلوں کی موجودگی میں سیاست کے پوسٹمارٹم کی پیاس بجھ جاتی ہے، دوم انتخابات کے قرب کا موسم اسی طرح رنگ بکھیرتا اور عجوبے دکھاتا ہے۔ انتخابات کے قریب سیاسی توڑ پھوڑ، اراکین کا وفاداریاں بدلنا، جلسے جلوس، حملوں سے بھرپور جذباتی تقریریں اور انتخابی اتحاد معمول کا کھیل ہوتے ہیں جنہیں دیکھتے عمر گزری ہے لیکن اس بار اس سیاسی توڑ پھوڑ میں کچھ خارجی عوامل بھی شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے سیاسی مہم کو ہیجان خیز بنادیا ہے اور سیاست کے باطن میں نفرت کی لکیریں مزید گہری کردی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں پارٹیاں آپس میں کشتی کرتی تھیں اور ایک دوسرے کے بخیئے ادھیڑتی تھیں لیکن اس بار عدلیہ بھی زیر عتاب ہے اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی چوری چھپے وار جاری ہیں۔ گویا اب نشانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ ان گنت افواہیں اور اندازے لوگوں کی تشویش میں اضافے کررہے ہیں اور بعض حلقوں کی جانب سے انتخابات کے غیر معینہ عرصے کے لئے التواء اور ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں جو بظاہر تو بےبنیاد اور’’ہوائی‘‘ لگتی ہیں لیکن ہماری تاریخ میں چونکہ اس طرح کے حوادث ہوتے رہے ہیں اس لئے جی ڈرتا ہے کہ کہیں جمہوری عمل پٹڑی سے اتر نہ جائے۔ میاں نواز شریف کو تیسری بار نااہل قرار دینے کے بعد احتساب عدالت سے سزا کی افواہیں گردش میں ہیں، اگر مقدمات کو بغور دیکھا جائے تو سزا کا امکان بہرحال موجود ہے اور بیٹی مریم بھی’’جعلی ڈیڈ‘‘کی لپیٹ میں آسکتی ہیں۔ باقی بچے ماڈرن شیر شاہ سوری جناب میاں شہباز شریف وہ خوش قسمت ہیں کہ حدیبیہ سے بچ نکلے لیکن اب ان کے سر پر ماڈل ٹائون سانحے کی تلوار لٹک رہی ہے اور بحکم چیف جسٹس اس مقدمے کی ڈے ٹو ڈے شنوائی کرکے اسے منطقی انجام پر پہنچانا مقصود ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ماڈل ٹائون سانحہ انتظامیہ کی سنگ دلی، ظلم اور سردمہری کا شاہکار ہے اور اس پر ستم یہ کہ کئی برسوں سے لٹک رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ملزمان طاقتور ہوں تو مقدمات لٹکتے ہی رہتے ہیں۔ اب جسٹس نجفی رپورٹ بھی عدالت کو دی جائے گی اور کہا جاتا ہے کہ اس رپورٹ میں جناب شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو بھی ’’ملزمان‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ میں انہی کالموں میں نصف درجن بار لکھ چکا ہوں کہ بے گناہوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ ایک وقت آتا ہے جب قاتل کا خنجر خود بولتا اور اس سے ٹپکتا لہو خود پکارتا ہے۔ میں نے اس سارے سانحے کوٹی وی اسکرین پہ دیکھا تھا۔ ظلم و زیادتی کے ساتھ قتل و غارت کا یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا۔پنجاب پولیس نے جہاں سفید داڑھیوں والے بزرگوں کو گھسیٹا اور ان پر لاٹھیاں برسائیں وہیں ان بہادر نوجوانوں نے باپردہ خواتین کو بھی نہ بخشا۔ برس ہا برس گزر گئے لیکن ٹی وی پر نظر آنے والے یہ مناظر میں آج تک نہیں بھول سکا۔ ماشاء اللہ یہ اس پولیس کا کارنامہ ہے جسے بدلنے اور پروفیشنل بنانے کا کریڈٹ جناب وزیر اعلیٰ ببانگ دہل لیتے ہیں۔ میں نے 39برس حکومت اور انتظامیہ میں گزارے ہیں۔ ہر روز اخبارات میں جرائم کی پھیلتی ہوئی وبا، پولیس مقابلوں میں معصوم شہریوں کا قتل عام، چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے رشوت، نام نہاد ملزموں کو پکڑ کر ان کے لواحقین سے بھاری رقم کے مطالبات ورنہ پار کرنے کی دھمکی، پولیس حوالاتوں سے لاشوں کی برآمدگی، اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکامی اور وارداتوں کا سراغ لگانے میں نااہلی جیسے واقعات پڑھ کر مجھے اس حاکم پررحم آتا ہے جو چودہ برس سے پولیس کلچر کو بدلنے کا خواب عوام کو دکھا رہا ہے۔ میں نے اپنی 39سالہ انتظامی ملازمت میں اتنی نااہل، کرپٹ، نالائق اور سنگدل پولیس نہیں دیکھی جو میرے مہربان شہباز شریف کے دور میں پروان چڑھی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کے گھر پر دو بار فائرنگ پنجاب میں لاقانونیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شہری زیادتی برداشت کرلیتے ہیں لیکن تھانے میں قدم رکھنے یا شکایت کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ میں ایسے سینکڑوں مناظر کا عینی شاہد ہوں اور انتظامیہ سے مایوس سے مایوس تر ہوچکا ہوں۔ اس پر مستزادیہ کہ ہمارے مہربان خادم اعلیٰ نے خدمت کے جذبے سے معمور ہو کر سارا صوبہ 56کمپنیوں کے حوالے کردیا ہے اور پنجاب کو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ماڈل بنادیا ہے۔ صدیوں سے یہی بیوروکریسی انتظامی امور چلاتی، بنیادی ضروریات کو یقینی بناتی اور مسائل کو حل کرتی رہی ہے۔ اب ہزاروں پانے والے افسران کو لاکھوں پر مقرر کرکے پنجاب کا خزانہ خالی کردیا گیا ہے۔ صاف پانی جیسی اسکیموں پر اربوں ر وپے بہادئیے گئے ہیں لیکن شہری بدستور صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کا سارا زور نمائشی منصوبوں پر رہا جن میں مظلوم خواتین کے سروں پر ہاتھ رکھنا اور پولیس گردی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کو خزانے سے لاکھوں روپے کے چیک پیش کرنا بھی شامل تھا۔ سروے کرکے دیکھ لیجئے انصاف ان مظلوم خاندانوں کو بھی نہ مل سکا البتہ حکمران سیاسی فائدہ سمیٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ روٹی اسکیم، صاف پانی اسکیم، جہالت کا خاتمہ، دانش اسکولز اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں نمایاں ناکامی کے باوجود گڈ گورننس اور شہباز ا سپیڈ کا امیج بنانا ان کے میڈیا منیجر کا جادو ہے ورنہ سچ یہ ہے کہ لاہور میں سڑکوں کی وسعت، فلائی اوورز، انڈر پاسز، میٹروبس کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ شرح خواندگی کم ہوئی ہے اور اسکولوں سے باہر طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، پنجاب کی انتظامی مشینری ناکامی کے دہانے پر کھڑی ہے، ضلعی اور صوبائی افسران ملتے ہیں تو زاروقطار روتے ہیں کہ اراکین اسمبلی اور حکمران خاندان نے ہمیں جکڑ رکھا ہے اور ہمیں آزادانہ کام کرنے کی آزادی ہے نہ فرصت۔ صرف حکمرانوں کے احکامات بجا لاتے ہیں۔ ابھی تو ان کمپنیوں کی کرپشن پر پردہ پڑا ہوا ہے جب نیب نے پردہ اٹھایا تو غضب کہانیاں سامنے آئیں گی جن میں میرے حسن ظن کے مطابق خادم ا علیٰ ملوث نہیں ہوگا لیکن ان کی اہلیت اور صلاحیت کا پردہ چاک ہوجائے گا، بات دور نکل گئی۔
میں کہہ رہا تھا کہ حیرت ہے اور یہ حکمرانوں کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کئی برس قبل حکمران خاندان کے پڑوس میں سانحہ ماڈل ٹائون پیش آیا جسے قوم نے جاگتی آنکھوں سے ٹی وی پہ دیکھا لیکن اتنے برس گزرنے کے باوجود انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، حتیٰ کہ چیف جسٹس کو دخل دینا پڑا جن کے دخل دینے پر قوم خوش اور حکمران ناخوش ہیں، خطرہ ہے کہ حدیبیہ سے بچ نکلنے والے شہباز شریف سانحہ ماڈل ٹائون میں پھنس جائیں گے۔ ادھر اصغر خان کیس کی تاریخ بھی طے ہوچکی ہے اور اس کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل درانی کے(حلفیہ بیان) مطابق میاں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کو لاکھوں روپوں کی رقوم دی گئی تھیں۔ 56کمپنیوں کے حساب کے علاوہ میاں شہباز شریف کے داماد کو بھی نیب نے یاد کیا ہے۔ اس لئے مجھے سیاسی منظر نامہ بدلتا نظر آتا ہے۔ میری کوتاہ نظر بتاتی ہے کہ انتخابات میں شاید کچھ پرانے کھلاڑی موجود نہیں ہوں گے اور جب ان کی کرپشن کہانیاں بےنقاب ہوں گی تو شاید یہ ان کے لئے ہمدردی کی لہر کو بھی متاثر کریں۔میرا مطالعہ بتاتا ہے کہ سیاستدان کو غیر سیاسی ہتھکنڈوں سے ختم کیا جاسکتا ہے نہ کمزور بلکہ وہ جیل جاکر اور مضبوط اورمزید پاپولر ہوتا ہے۔سیاستدانوں کو سیاسی حوالے سے صرف ایک سچائی کمزور کرتی ہے اور وہ ہے ان کی لوٹ مار اور کرپشن کے ناقابل تردید ثبوت۔ سیاست بھی کیسی چیز ہے ،میں سیاست پر لکھنا نہیں چاہتا تھا لیکن پورا کالم لکھ دیا۔
نوٹ:آئندہ دو ماہ آپ سے ملاقات بوجوہ کم ہوگی دعائوں میں شامل رکھیں تو یہ آپ کا احسان ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)