ہم نئے خیالات سے بدکتے کیوں ہیں؟

April 17, 2018

اگر میں یہ کہہ دوں کہ ہمارے ملک میں ادبی میلوں اور جشنوں کی وبا پھیل گئی ہے، تو آپ برا تو نہیں مانیں گے؟ میں وبا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ان میلوں اور جشنوں میں جو موضوع زیر بحث آتے ہیں وہ کسی وبا کی طرح ہر پھر کر ایک ہی انداز، اور ایک ہی کینڈے کے ہوتے ہیں۔ خاص طور سے ہماری سرکاری یونیورسٹیوں میں جو موضوع بحث مباحثے کے لئے رکھے جاتے ہیں وہ اب تک کلیشے بن چکے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ان مباحثوں میں حصہ لینے والے ہمارے اساتذہٗ کرام کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ موضوع تو اتنے پٹ چکے ہیں کہ اب تک اس کی جان بھی نکل گئی ہو گی۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ معاشرے کی تشکیل میں ادب کا کیا کردار ہے؟ یا پھر یہ انکشاف کہ آج ہمارا ادب روبہ زوال ہے، کتنی بار بحث کا موضوع بن چکے ہیں؟ اب تو یاد بھی نہیں رہا۔ ادب اور معاشرے کے موضوع پر اکادمی ادبیات اتنے پروگرام کر چکی ہے کہ اس پر کئی ضخیم کتابیں مرتب کی جا سکتی ہیں۔ تعلیمی اداروں سے تو یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کلیشے سے باہر نکلیں گے اور وہ موضوع سامنے لائیں گے جن پر آج مہذب دنیا میں بات کی جا رہی ہے۔ مہذب دنیا تو سچائی سے نکل کر مابعد سچائی یاpost truth تک پہنچ چکی ہے۔ اور ہم ابھی تک اپنے معاشرے میں ادب کے اثرات پر بحث کر رہے ہیں۔ ہم ادب کے اثرات کی بات کرتے ہوئے یہ دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ فرانس میں روسو اور والٹیئر کی وجہ سے انقلاب آیا۔ اور فلاں ملک میں یہ ادیب ہی تھے جنہوں نے انقلاب کے لئے حالات استوار کئے۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کیا ہم نے اس کے لئے اپنی کسی نسل کو تیار بھی کیا ہے؟ ہم یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ ہم بھی مابعد سچائی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہمارے اردگرد، بلکہ ہماری سڑکوں اور گلیوں میں سچ اور حق کے نام پر جو کچھ سامنے آ رہا ہے وہ سچائی نہیں ہے بلکہ مابعد سچائی ہے۔ ہمارا آج کا معاشرہ ادب نے تشکیل نہیں دیا ہے بلکہ اس تعلیم نے تشکیل دیا ہے جو ہم پچھلے ساٹھ ستر سال سے اپنے بچوں کو دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اور اسی تعلیم نے ہمارے میڈیا کی آبیاری بھی کی ہے اور یہ میڈیا بھی ہمارا معاشرہ تشکیل دے رہا ہے۔ ہماری تعلیم نئی نسل میں تنقیدی فکر پیدا نہیں کرتی۔ اس میں سوال کرنے کی اہلیت اور للک پیدا نہیں کرتی بلکہ ان کے اندر پہلے سے تسلیم شدہ عقائد اور نظریات کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمارے معتبر نقاد اور افسانہ نگار ناصر عباس نیر نوآبادیاتی نظام کی تعلیمی اور علمی پالیسی پر خواہ کتنی ہی نکتہ چینیاں کرتے رہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ انگریزی زمانے کی تعلیم ہی تھی جس نے گاندھی اور محمد علی جناح جیسے رہنما پیدا کئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس دور میں آپ جب انگریزی ادب پڑھتے تھے تو آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوتے تھے۔ آپ کے دماغ میں ایک تیکھی چبھن سی ابھرتی تھی اور وہ چبھن آپ کو سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتی تھی۔ اب کیا ہے؟ ہم گاڑی تو آگے کی جانب چلا رہے ہیں، مگر دیکھ پیچھے رہے ہیں۔
اب اس افواہ کی طرف بھی آ جائیے کہ ہمارا ادب رو بہ زوال ہے۔ یہ افواہ صرف وہ لوگ ہی نہیں اڑاتے جو نیا ادب نہیں پڑھتے بلکہ ہمارے تعلیمی اداروں کے اکثر استاد بھی اسی افواہ کے اسیر ہیں۔ ایک آدھ استثنا کو چھوڑ کر ہمارے استاد نئے لکھنے والوں کو اس لئے نہیں پڑھتے کہ وہ تعلیمی اداروں کے کورس میں شامل نہیں ہیں۔ پرانے ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں جو ایک رومانی تصور ان کے ذہنوں میں بیٹھ چکا ہے وہ کولہو کے بیل کی طرح اسی کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ وہی بات کہ جو رویا وہ پچھلوں کو رویا۔ بلاشبہ پرانے ادیبوں اور شاعروں نے اعلیٰ معیار کا جو ادب پیدا کیا وہ ہمارا انمول اثاثہ ہے لیکن وہ قدیم ادیب اور شاعر بھی گنتی کے ہی تو ہیں۔ یہی گنتی آج بھی موجود ہے۔ اب ابدیت کا فیصلہ تو آنے والا زمانہ کرے گا۔ مگر آج کے یہ گنتی کے ادیب اور شاعر بھی آج کے زمانے کی روح اور عصری حسیت ہی پیش کر رہے ہیں۔ شاعروں میں فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، عذرا عباس، افضال سید اور تنویر انجم جیسے شاعر جس طرح آج کے معاشرے کی دقیانوسی روایات کو چیلنج کر رہے ہیں وہ اعلیٰ معیار کا ادب نہیں تو اور کیا ہے؟ عرفان احمد عرفی، ناصر عباس نیر، محمد حمید شاہد اور اصغر ندیم سید جیسے افسانہ نگار آج جو افسانے لکھ رہے ہیں وہ آج کے معاشرے کے بخیے ہی تو ادھیڑ رہے ہیں۔ تنگ نظری اور شدت پسندی ہمارے آج کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔ اس پر صرف ہمارے شاعروں نے ہی توجہ نہیں دی ہے بلکہ افسانہ نگاروں نے بھی اس پر افسانے لکھے ہیں۔ حمید شاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک کتاب کے لئے ایسے افسانے تلاش کرنا شروع کئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان مسائل پر کئی سو افسانے اردو میں لکھے جا چکے ہیں۔ اب یہ اچھے افسانے ہیں یا برے، لیکن ہمارے افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز تو بنے ہیں۔ ہمارے معتبر ناول اور افسانہ نگار اکرام اللہ نے حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سالانہ اجلاس میں جو خطبہ دیا ہے اس میں انہوں نے اردو میں لکھے جانے والے نئے ناولوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے’’ناول کی صنف پچھلے کئی برسوں سے متواتر اپنا آپ منوانے پر مصر ہے۔ اور سابقہ کمی کی تلافی کرنے پر نہایت کامیابی سے کوشاں ہے۔ حال ہی میں چند ایک نئے ناول شائع ہوئے ہیں۔ وہ قارئین کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔‘‘ اس سلسلے میں انہوں نے چار نئے ناولوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں اختر رضا سلیمی کا ’’جندر‘‘، نیلم احمد بشیر کا ’’طائوس فقط رنگ‘‘ طاہرہ اقبال کا ’’نیلی بار‘‘ اور خالد فتح محمد کا ناول ’’کوہ گراں‘‘ شامل ہیں۔ اب جو اصحاب اردو ادب کے زوال کی بات کرتے ہیں ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا انہوں نے ان میں سے ایک بھی ناول پڑھا ہے؟ اور کیا ہمارے تعلیمی اداروں کے استادوں نے اپنے شاگردوں کو یہ ناول پڑھنے کی تلقین کی ہے؟ میں تمام استادوں کی بات نہیں کر رہا ہوں صرف ان استادوں کی بات کر رہا ہوں جو ادبی میلوں میں اردو ادب کے زوال کا رونا روتے ہیں۔ ادبی میلے ضرور ہونا چاہئیں مگر آج کے سلگتے، جلتے بھنتے اور بھڑکتے موضوع پر محاکمہ اور مجادلہ کرانا چا ہئے۔ معاشرے پر ادب کے اثرات اور ادب پر معاشرے کے اثرات بہت ہو گئے۔ یہ اثرات پڑھے لکھے معاشروں میں ہوتے ہیں۔ جب آپ کتاب پڑھنے والوں میں تنقیدی فکر ہی پیدا نہیں کریں گے تو معاشرے پر اعلیٰ ادب کے خاک اثرات ہوں گے۔ یہاں تو وہی دقیانوسی خیالات ہمارے معاشرے کی تشکیل کرتے رہیں گے جو تعلیمی اداروں میں ہم نئی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ آخر ہم نئے خیالات اور نئی فکر سے بدکتے کیوں ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)