فرانسیسی صدر اپنی سوچ کے مطابق یورپی یونین کی تشکیل نو کے خواہاں

April 19, 2018

تحریر ایسا بینیٹ

فرانس کے صدر ایمانوئل میکغوں اپنی سوچ کے مطابق یورپی یونین کی تشکیل نو کے خواہاں ہیں۔(فرانسیسی صدر خود کو رومیوں کے دیوتا کے رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں)لیکن ان کے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد بھی ان کا یہ مشن تعطل کا شکار ہے جس کی وجہ جرمنی کا جمود ہے۔ اسی لئے فرانسیسی صدر نے یورپی یونین کے تشخص کی بحالی کے لئے دیگر ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے۔

وہ اپنی اس مہم کے سلسلے میں منگل کی صبح اسٹراسبرگ شہر پہنچے تاکہ یورپی پارلیمنٹ کو اپنا وژن دے سکیں۔ 40 سالہ رہنما نے یورپی یونین کی دلکشی کی یقین دہانی کروائی، انہوں نے یورپی ارکان پارلیمنٹ کو یہ بتایا کروایا کہ وہ ایک معجزاتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپی جمہوریت ان کے خیال سے ہماری ترقی کا بہترین موقع ہے اور کیا دنیا میں بھی ایسا ہی ہے؟

ہشاش بشاش فرانسیسی صدر میکغوں اس بات کی تردید نہیں کرسکتے کہ یورپی یونین میں شامل سب ہی ارکان اس پراجیکٹ میں شامل نہیں ہے۔ ’’انہوں نے اعتراف کیا کہ کئی یورپی ممالک میں شکوک وشبھات موجود ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے یورپ میں خانہ جنگی ہو۔‘‘صاف ظاہر ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلاء کا معاملہ، اٹلی میں یورپ کیخلاف ابھرتی ہوئی مخالفت، پولینڈ کی برسلز کیساتھ جاری محاذ آرائی اور ہنگری میں مہاجرین مخالف وکٹر اوربان کا دوبارہ انتخاب فرانسیسی صدر کے ذہن میں گردش کررہا ہو۔ انہوں نے ان لوگوں کیخلاف سخت الفاظ استعمال کئے جنہوں نے ایسے واقعات کی حمایت کی، انہوں نے تنگ نظری کی مذمت کی جو کہ اس وقت اپنی عروج پر ہے۔

ان کے اس نظریے کو اسٹراسبرگ میں سراہا بھی گیا۔ یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر نے اس موقع پر کہا کہ میں اپنے جذبات اور دوستی کا اظہار کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ فرانسیسی صدر نے جس طرح اپنے خیالات کرتے ہوئے سنا تو میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی فرانس واپس آگیا ہے۔ انہوں نے فرانسیسی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ گھبرائیں اور نہ پیچھے ہٹیں۔ یورپی یونین کے اجلاس کے موقع بلجین سیاستدان ویرو فڈسٹٹ نے بھی فرانسیسی صدر کی تائید کی اور انہوں نے بھی پرجوش انداز میں یورپ کی اپنی فوج کا مطالبہ کیا۔

یورپی پارلیمنٹ میں لیبر کے رکن نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرانسیسی صدر کے خطاب کی ستائش کی اور کہا کہ تھریسامے شاید ایسا نہ کرسکتیں جبکہ لبرل ڈیموکریٹ کے رکن یورپی پارلیمنٹ کیتھرین بیرڈر کا کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر کے حوالے سے لوگ انتہائی پرجوش ہیں۔

یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلاء کے بعد اہم تبدیلی کے حوالے سے فرانسیسی صدر نے مستقبل کے حوالے سے جو منصوبہ بندی کی ہے اس میں یورپی یونین کا اتحاد بھی شامل ہے جبکہ فرانس اخراجات کی ادائیگی کے لئے بخوشی راضی ہے اور یورپی یونین کے بڑے بجٹ، مشترکہ کارپوریٹ ٹیکسز، ایک متحد سماجی پالیسی اور مہاجرین کے لئے مشترکہ پالیسی کا خواہاں ہے۔

فرانسیسی صدر کو پختہ یقین ہے کہ یورپی یونین ایک ایسا اتحاد بن جائے گا کہ برطانیہ یورپی اتحاد سے انخلاء کے بعد ایک بار پھر اس میں واپسی کا خواہاں ہوگا۔ انہوں نے ستمبر میں کہا تھا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ برطانیہ کے پاس ایسا کوئی جواز نہیں ہوگا کہ وہ یورپی اتحاد میں اپنا مقام نہ پاسکے۔‘‘

لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ فرانسیسی رہنما کتنے پرعزم ہوسکتے ہیں یورپ کیلئے ان کا وژن برطانوی ووٹرز کے ایک حصے کے سامنے اپیل کے طور پر آسکتا ہے۔ برطانیہ میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں صرف 8 فیصد لوگ مزید متحد یورپ میں شامل رہنے کے خواہاں ہیں جبکہ صرف تین فیصد لوگ ایک واحد یورپی حکومت کیساتھ کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں اس میں معمولی سے تبدیلی آئی ہے جبکہ 2000 کی ابتدائی دہائی میں یورپ کے لئے برطانوی عوام کی حمایت اپنی انتہا پر تھی اور 13 فیصد اس کے حامی تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے خواہاں افراد کو ووٹرز کو قائل کرنے کے لئے ایک بڑی جنگ لڑنا پڑے گی۔ درحقیقت کئی ووٹرز اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

برطانوی سروے کے مطابق 20 فیصد لوگ جوں کی توں صورتحال برقرار رکھنے کے حامی ہیں جبکہ اس کے برعکس دوگنا سے زائد افراد اگر یورپی یونین کے اختیارات کم کئے جائیں تو پھر وہ یورپی یونین میں رہنے کے حوالے سے سوچ سکتے ہیں۔ لیکن مستقبل کے لئے یہ دونوں ہی صدر میکغوں کے مفادات کے لئے کار آمد نہیں۔

برطانوی عوام 2016میں یورپی یونین کو چھوڑنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اب معاملہ یورپ سے قربت کا ہے جبکہ مزید چیزیں بھی یورپی یونین کے مخالف ووٹرز کے جذبات کو ابھار سکتی ہے۔ برسلز سے اپنا کنٹرول واپس لینے کے حق میں ووٹنگ کے بعد اب یہ لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ اپنا اختیار دوبارہ کسی اور کو دیں اور وہ بھی پہلے سے زیادہ سخت ڈگری پر؟

اسٹراسبرگ کے اجلاس میں جرمنی کی عدم دلچسپی کے باوجود فرانس کے لئے ستائش سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ارادہ ظاہر کردیا ہے۔ جیسے جیسے یہ لوگ اپنے اس پروگرام کو مزید آگے بڑھائیں گے برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے حامی افراد کے لئے برطانوی ووٹرزکو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کیلئے آمادہ کرنے کے لئے مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔